جمعرات, اپریل 17, 2025
اشتہار

مارگریٹ تھیچر: بیسویں صدی کی ایک اہم فیصلہ ساز سیاست داں

اشتہار

حیرت انگیز

مارگریٹ تھیچر کو بیسویں صدی کی اہم ترین سیاسی شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے جو 1979ء میں برطانیہ کے عام انتخابات میں کام یاب ہوئی تھیں اور پھر 1983ء اور 1987ء میں بھی سیاسی فاتح رہیں۔ انھیں برطانیہ کی آئرن لیڈی بھی کہا جاتا ہے۔

مارگریٹ تھیچر کے دور میں کئی اہم فیصلے اور پالیسیاں نافذ کی گئیں جن کا برطانیہ اور دنیا پر بھی گہرا اثر پڑا۔ 1992ء میں پارلیمان کے ایوانِ زیریں سے ریٹائر ہونے والی مارگریٹ تھیچر 8 اپریل 2013ء کو انتقال کرگئیں۔

1982ء میں‌ جب مارگریٹ تھیچر برطانیہ کی حکم راں تھیں تو ارجنٹائن نے مختلف جزائر کے مجموعے پر مشتمل ملک فاک لینڈ پر قبضہ کرنے کے لیے فوجی کارروائی کی تھی۔ برطانیہ کی وزیرِ اعظم کی حیثیت سے اس وقت مارگریٹ تھیچر نے ارجنٹائن کے خلاف فوجی طاقت کے استعمال کا فیصلہ کر کے دنیا کی توجہ حاصل کر لی تھی۔ وہ اپنی اسی قوّتِ ارادی اور سیاسی بصیرت کے لیے مشہور تھیں اور بعض ایسے اقدامات کیے جن کے بعد انھیں آئرن لیڈی کے لقب سے یاد کیا جانے لگا۔

جنوبی بحرِ اوقیانوس میں ارجنٹائن کے ساحل سے 480 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود جزائر کا مجموعہ فاک لینڈ کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں 776 چھوٹے جزائر اور دو بڑے جزیرے مشرقی فاک لینڈ اور مغربی فاک لینڈ کہلاتے ہیں۔ یہ رقبے کے اعتبار سے 12,000 مربع کلومیٹر سے زائد پر محیط ہیں اور یہاں چند ہزار نفوس پر انسانی آبادی بھی رہی ہے۔ 1833ء سے برطانیہ نے ان جزائر کا انتظام سنبھال رکھا تھا، لیکن یہ علاقہ برطانیہ اور ارجنٹائن کے مابین متنازع تھا۔ ارجنٹائن ان پر اپنا حقِ ملکیت جتاتا تھا۔ اس علاقہ کی عمل داری اور جزائر کی تحویل پر دونوں ممالک کے مابین تعلقات کشیدہ تھے۔ مارگریٹ تھیچر کے دور میں برطانیہ اور ارجنٹائن میں قبضے کی جنگ چھڑی تو ارجنٹائن کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ اتفاق دیکھیے کہ برطانیہ کی سابق وزیرِ اعظم مارگریٹ تھیچر کے انتقال سے صرف ایک ماہ قبل یعنی 10 مارچ 2013ء کو ہی فاک لینڈ میں‌ عوامی ریفرنڈم میں وہاں کے لوگوں نے برطانیہ کے حق میں فیصلہ سنایا تھا۔ ارجنٹائن کے حق میں‌ صرف 3 ووٹ پڑے تھے۔

مارگریٹ تھیچر کے بارے میں ایک عام خیال یہ تھا کہ وہ مضبوط اعصاب کی مالک اور اپنے فیصلے پر ڈٹ جانے والی خاتون ہیں۔ اس وقت ارجنٹائن کے خلاف جنگ ان کا بڑا فیصلہ تھا اور برطانوی عوام نے اس کی کھل کر تائید اور حمایت کی تھی۔ یہی مقبولیت برطانیہ کے اگلے عام انتخابات میں بھی ان کی کام یابی کی وجہ بنیاد بنی۔ دوسرے دور حکومت میں برطانیہ میں نمایاں اقتصادی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں جس پر انھیں کڑی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

وہ برطانیہ کی پہلی خاتون وزیرِاعظم تھیں۔ مارگریٹ ہلڈا تھیچر کو ان کے ناقدین انھیں‌ سخت گیر اور مفاہمت نہ کرنے والی خاتون کہتے تھے۔ برطانیہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ مارگریٹ تھیچر کا انتخاب اس وقت کی ملکی سیاست کے لیے غلط نہ تھا۔ وہ کئی سیاسی، اقتصادی اور عسکری فیصلے کرسکیں جو شاید کسی دوسرے لیڈر کے لیے مشکل ثابت ہوتے، لیکن مارگریٹ تھیچر مخالفت اور تنقید سے بے پروا تھیں۔

مارگریٹ تھیچر کا سنہ پیدائش 1925ء ہے۔ وہ گرانتھم، لنکاشائر میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد سبزی فروش تھے۔ وہ ایک جُز وقتی مبلغ اور مقامی کونسلر بھی تھے جن کا ان کی بیٹی کی زندگی پر اثر تھا۔ وہ کہتی تھیں کہ ’میرے والد نے میری ایسی تربیت کی ہے کہ میں ہر اس چیز پر یقین کروں جس پر مجھے یقین ہو۔‘ آکسفورڈ میں مارگریٹ تھیچر نے کیمسٹری کے مضمون میں ڈگری لینے کے بعد 1947ء سے 1951ء تک ایک ادارے میں علمی و تحقیق کام کیا۔ 1951ء میں ان کی شادی ہوگئی اور بعد میں مارگریٹ تھیچر نے تعلیمی سلسلہ جاری رکھا، مگر اب وکالت ان کا مضمون تھا۔ 1953ء میں امتحان میں کام یابی کے بعد وہ ٹیکس اٹارنی بن گئیں۔ یہاں سے انھیں سیاست کے میدان میں قدم رکھنے کا موقع ملا اور وہ کنزرویٹو پارٹی سے وابستہ ہوئیں۔ 1959ء میں وہ اپنی جماعت کے ٹکٹ پر دارالعوام کی رکن منتخب ہوگئیں اور پھر وزارت عظمیٰ ان کا مقدر بنی۔

مارگریٹ تھیچر کے دور میں اصلاحات اور بعض اقدامات کی وجہ سے عوام نے مشکلات بھی دیکھیں اور اسی کا سیاسی فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی مخالفت زور پکڑ گئی تھی۔ ان کی پالیسیوں کے باعث برطانیہ میں بے روز گاری کی شرح بہت بڑھ گئی تھی، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ انہی پالیسیوں کے برطانوی معیشت پر دیرپا اثرات مرتب ہوئے اور وہاں ترقّی دیکھنے میں آئی۔ برطانیہ میں نجکاری کا عمل تیز ہوا۔ ملک میں ’فری مارکیٹ اکانومی‘ کی ترقّی کے لیے کام کیا گیا۔ اس دور میں مزدور یونین تنظیموں کے اثرات کو کم کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔

برطانیہ کی خارجہ پالیسی بھی مارگریٹ تھیچر کی وجہِ شہرت رہی۔ خاص طور پر برطانیہ اور ارجنٹائن جنگ کے دوران انھوں نے دوست ممالک اور دنیا کے سامنے اپنا مؤقف بہت اچھے انداز سے پیش کیا اور عالمی سطح پر ان کی حمایت میں اضافہ ہوا۔

ارگریٹ تھیچر کے بارے میں ان کے بعد وزیرِاعظم کا عہدہ سنبھالنے والے سَر جان میجر نے کہا تھا، ’ان کی اقتصادی اور مزدور تنظیموں کے قوانین میں اصلاحات اور فاک لینڈ جزیروں پر برطانوی کنٹرول یقینی بنانے کے اقدامات نے انھیں ایک اعلیٰ پائے کے سیاست دان ثابت کیا۔ یہ ایسی کام یابیاں تھیں جو شاید کوئی اور راہ نما حاصل نہیں کر سکتا تھا۔‘

دوسری طرف وفات کے بعد سابق مارگریٹ تھیچر کے بارے میں برطانوی معاشرے کی منقسم سوچ بھی سامنے آئی اور جہاں ان کی ملک اور قوم کے لیے خدمات کو سراہا جارہا تھا وہیں کئی حلقے اُن کے بارے میں ناخوشگوار باتیں کرتے رہے۔ لیکن برطانوی اخبارات کی خصوصی اشاعت میں انھیں زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا۔ برطانیہ کے دائیں بازو کے گروہ مانتے ہیں کہ وہ بہت اچھا کام کر رہی تھیں جب کہ بائیں بازو کا طبقہ ان کی مزدور تنظیموں کے خاتمے اور صنعتوں کے لیے ان کی تباہ کن پالیسیوں پر ان کا بڑا ناقد رہا ہے۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں