کسان خواہ کسی بھی ملک کے ہوں، ان میں ایک بڑی تعداد کے لیے دیہاتی زندگی کی یکسانیت کو چھوڑ کر شہری مواقع کو اپنانا ایک زندگی بھر کا خواب ہوتا ہے لیکن ایک پاکستانی خاتون مریم جاوید محمد نے اس کے برعکس انتخاب کیا۔ انھوں نے دنیا کے سب سے زیادہ مصروف شہر دبئی کی سہولت کو چھوڑا اور اپنے چینی شوہر کے ساتھ چین کے شمالی علاقے کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں اپنی ’’دوسری زندگی‘‘ شروع کرنے کے لیے منتقل ہو گئیں۔
دبئی میں جوان ہونے والی مریم جاوید نے کہا ’’بڑے شہروں کی ہلچل اور شور سے عادی ہونے کے بعد اب مجھے ایک پرامن اور فطرت سے جڑی دیہاتی زندگی کی آرزو ہوئی ہے۔‘‘ چین آنے کے بعد ان کا روزمرہ کا معمول مقامی ثقافت سے خود کو روشناس کرانے، علاقائی پکوان پکانے، سیکھنے اور ویڈیوز کے ذریعے گاؤں کی زندگی کو دستاویزی شکل دینے کے گرد گھوم رہا ہے۔ انھوں نے صرف 2 ماہ میں مختلف سوشل میڈیا پر 50 ہزار سے زیادہ فالوورز بنا لیے ہیں۔
مریم نے بتایا ’’میرے شوہر نے چین آنے سے پہلے ہی مجھے اپنے گاؤں سے متعارف کرایا تھا، جہاں وہ جوان ہوئے تھے، اس لیے میں نئے ماحول میں خود کو ڈھالنے کے بارے میں زیادہ فکر مند نہیں تھی، جب تک میں ان کے ساتھ ہوں، میں زندگی کے کسی بھی چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوں۔‘‘
تاہم مریم جاوید کو حیرانی یہ ہوئی کہ وہ چین کے شمالی صوبے شنشی کے شہر یون چھنگ کی دیہی زندگی میں کس طرح آرام سے اور بغیر کسی مشکل کے ڈھل گئیں۔ انھوں نے وضاحت کی کہ وہ اب فینگ گاؤں میں رہتی ہیں، جہاں ہر گھر کشادہ، روشن اور جدید سہولیات سے آراستہ ہے۔ کھانے کا تنوع بھی بہت زیادہ ہے، قیمتیں مناسب ہیں اور مقامی بازار تازہ پیداوار سے بھرے پڑے ہیں۔
مریم نے کہا یہاں ایک تازہ انناس صرف 8 یوآن (تقریباً 1.1 امریکی ڈالر) کا ملتا ہے۔ دبئی میں یہ 5 سے 10 گنا مہنگا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ حال ہی میں انھوں نے آن لائن خریداری سیکھی ہے اور حیرت زدہ ہے کہ کس طرح ترسیل چند دنوں میں ان کے دروازے تک پہنچ جاتی ہے۔ ’’میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ چین کے دیہات میں ترسیل اتنی مؤثر ہو سکتی ہے، آپ تقریباً ہر چیز گھریلو استعمال کی اشیا، آلات اور کپڑے آن لائن خرید سکتے ہیں۔‘‘
چین کی گہری جڑوں کی حامل روایتی ثقافت نے مریم کو سب سے زیادہ متاثر کیا، اس سے قبل اس قدیم مشرقی قوم کے بارے میں ان کا علم ٹیراکوٹا واریئرز اورعظیم دیوار چین جیسے تاریخی مقامات تک محدود تھا، لیکن رواں سال اپنے پہلے موسم بہار تہوار کے دوران انھوں نے خود دیہاتیوں کو اپنے ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے پر گہرے فخر کا اظہار کرتے ہوئے دیکھا۔
مریم نے تعطیلات کے دوران آتش بازی، خوش قسمتی کے لیے آلاؤ روشن کرنے، مندر میلوں کی سیر کرنے اور قریبی قصبوں میں متحرک پریڈز میں شرکت کی۔ انھوں نے ان تقریبات کے بارے میں کہا کہ کچھ لوگوں نے ڈریگن رقص کیا، کچھ لوگوں نے بانس پر چل کر کرتب دکھائے۔ ’’اگرچہ میں ابھی تک اس کی علامت کو پوری طرح نہیں سمجھ پائی ہوں، لیکن ہر کوئی مکمل خوشی سے لبریز اور مکمل طور پر تہوار کے جوش و خروش سے سرشار تھا۔‘‘
جس چیز نے مریم کو سب سے زیادہ متاثر کیا وہ ہر دیہاتی کے دل میں پیوست گہری ’’خاندانی ثقافت‘‘ تھی۔ انھوں نے مشاہدہ کیا کہ ان کا گاؤں ایک بڑے مشترکہ خاندان کی طرح کام کرتا ہے، پڑوسی ایک دوسرے کو گہرائی سے جانتے ہیں، آزادانہ طور پر ملتے جلتے ہیں اور ایک دوسرے کی غیر مشروط حمایت کرتے ہیں۔ مریم نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ چین منتقل ہونے سے ایسا محسوس ہوا جیسے کہ ایک بڑے خاندان سے دوسرے بڑے خاندان میں منتقل ہو رہی ہوں۔ انھوں نے مزید کہا کہ وہ خود 7 بہن بھائیوں کے ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔
دریائے زرد کے وسطی اور زیریں حصوں میں واقع یون چھنگ چینی تہذیب کا گہوارہ ہے، جو روایتی، مستند چینی ثقافت کا حامل ہے۔ اس کی بنیاد خاندانی اقدار ہیں، چینی لوگ جہاں بھی جائیں خاندان ان کا سب سے قیمتی بندھن رہتا ہے۔ مریم نے کہا حال ہی میں بلاک بسٹر فلم ’’نی جا 2‘‘ میں دکھایا گیا ہے جب مرکزی کردار اپنے گاؤں کو تباہ ہوتے دیکھتا ہے تو مجھے اس کا غم اور غصہ محسوس ہونے لگتا ہے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ چینی لوگ ہر چیز سے بڑھ کر خاندان کو ترجیح دیتے ہیں۔
اب اپنے پہلے بچے کی توقع کرتے ہوئے مریم چینی زبان سیکھنے پر توجہ مرکوز کر رہی ہیں، ان کا ارادہ ہے کہ جلد اپنے خاندان کو دیہاتی چین دیکھنے کے لیے مدعو کریں۔ انھوں نے کہا ’’میں یہ بھی امید کرتی ہوں کہ میری ویڈیوز دنیا کو چینی لوگوں کی حقیقی محبت اور ان کی ثقافت کی دولت دکھا سکیں۔‘‘