امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روزیروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے امریکی سفارت خانہ وہاں منتقل کرنے کے احکامات صادر کردیے ہیں‘ آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ گزشتہ پچاس سال میں اسرائیلیوں نے یروشلم میں مسجد الاقصی ٰ سمیت دیگر اسلامی آثار کو مٹانے کے لیے کیا کیا مظالم ڈھائے ہیں۔
امریکی صدر کے اس اقدام کی عالمِ اسلام سمیت اقوامِ عالم نے شدید لہجے میں مذمت کی ہے اور اس قدم کو امنِ عالم کے لیے خطرہ قرارد یا ہے۔ دوسری جانب فلسطین نے بھی ایسے کسی انتظام کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔
مسجد اقصی کے خلاف اسرائیلی کوششوں کا آغاز 7 جون 1967 سے ہوا جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ 7 جون 1967 مسجد اقصی کا پچھمی دروازہ جسے باب مغاربہ کہا جاتا ہے، اس کی چابیوں کوزبر دستی اس وقت اپنے قبضے میں لے لیا گیا جب اسرائیلی فوج نے شہر پر قبضہ کر کے اردنیوں کو وہاں سے باہر نکالا تھا۔9 جون 1967 اسرائیلی افسروں نے مسجد اقصی میں نماز جمعہ ادا کرنے پر پابندی لگا دی۔21 جون 1969 ڈینس مائکل روہان نامی ایک آسٹریلوی سیاح کا روپ دھارے دہشت گرد نے مسجد کو آگ لگادی جس سے اس کی شاندار محراب خاکستر ہوگئی جبکہ سلطان صلاح الدین ایوبی کا نصب کیا ہوا منبر بھی نذرِ آتش ہوگیا۔
پوری دنیا میں اس کی مذمت کی گئی لیکن کچھ یہودی تنظیموں نے اس کی تعریف کی اور اسے بائبل کی پیشن گوئی قرار دیا۔16 نومبر 1969 حرم شریف کے جنوب مغربی جانب موجود گوشہ فخریہ کو اپنے قبضے میں لے لیا۔14 اگست 1970 دی جیرشن سلمان گروپ نے جو کہنے کے لئے ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو کا فیصلہ کئے ہوئے تھا‘ زبر دستی حرم میں داخل ہو گیا لیکن مسلمانوں کے مقابلے کی وجہ سے ہارنے پر مجبور ہو گیا البتہ اس گھمسان میں دسیوں نمازی اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے زخمی ہوئے۔1
سرنگ کی کھدائی
اپریل 1980،9 یہودی راہبوں اور بڑے بزرگوں کے ایک گروپ نے معبد کوہ(ٹیمپل ماؤنٹ)پر قبضہ کرنے کے لئے ایک کانفرنس کی۔28 اگست 1980 اسرائیلی افسروں نے مسجد اقصی کے ٹھیک نیچے ایک سرنگ کھودی۔30 مارچ 1982 مسلم اوقاف کے ذمہ داروں نے اسرائیل کو دنیا کی کئی ایک زبانوں میں خطوط لکھے اور اپنی حرکتوں سے باز نہ آنے کی صورت میں اس کے خطرناک نتائج کی بات کہی۔11 اپریل 1982 ایلن گڈ نامی ظالم اسرائیلی فوجی نے اپنے ایم۔16 ایزالٹ رائفل سے فائرنگ شروع کر دی جس سے کچھ لوگ قتل ہوئے اور کچھ زخمی، دونوں کی تعداد 60 تھی۔20 مئی 1982 مذکور الصدر خطوط کے جوابات کے طور پر ان اوقاف کے ذمہ داروں کو موت کی دھمکیاں دی گئیں۔
مارچ 1983،26 یروشلم کا اصلی اندرونی دروازہ اس کھدائی کی وجہ سے منہدم ہو گیا۔21 اگست 1985 اسرائیلی پولیس نے اسرائیلیوں کو حرم میں عبادت کرنے کی اجازت دے دی۔14 اگست 1986 یہودی راہبوں نے ایک قانون پاس کیا جس میں یہودیوں کو حرم میں عبادت کی اجازت دے دی گئی اور حرم کے علاقے میں انہوں نے ایک صومعہ بنانے کا مطالبہ کیا۔12 مئی 1988 اسرائیلی سپاہیوں نے مسلمانوں کے پر امن احتجاج پر حرم کے سامنے فائرنگ کر دی جس سے لگ بھگ 100 فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے۔8 اگست 1990 اسرائیلی افسروں نے مسجد اقصی میں قتل عام کیا جس سے 22 نمازی شہید ہو گئے اور 200 سے زیادہ آدمی زخمی ہو گئے۔25 جولائی 1995 اسرائیلی ہائی کورٹ نے معبد کوہ میں یہودیوں کو عبادت کی اجازت دے دی جس سے مسلمانوں کے جذبات کو زبر دست ٹھیس پہنچی اور پوری دنیا میں اس کے خلاف احتجاج ہوئے۔28 ستمبر 2000 ایریل شیرون کے نا پاک قدم مسجد اقصی میں پڑے جس کی وجہ سے وہاں کے مسلمانوں کو بڑی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دن فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے بیچ بڑی زبر دست جھڑپیں ہوئیں۔
حماس / اسرائیل جنگ
سنہ 2008اور 2009 میں اسرائیل نے حماس کے خلاف بڑی سخت لڑائی چھیڑی جس میں 22 دن تک خوب بربریت کا مظاہرہ کیا۔ الغرض اسرائیل کا ٹارگٹ مسجد الاقصی کو مکمل طور پر اپنے قبضے میں کرنا‘ گنبد صخرہ کو ڈھا کر اس کی جگہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا اور اسرائیلی شدت پسندوں کو وہاں آباد کرنا ہے۔یہاں تک وہ حالات تھے جن کا براہ راست مسجد اقصی سے تعلق ہے لیکن اسرائیل کا مشق ستم جس طرح قبلہ اول ہے اسی طرح پوری سر زمین فلسطین بھی ہے۔
اسرائیلی ظلم و ستم کا شکار فلسطینی آج بھی پتھروں کے دور کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ فلسطین میں دن بہ دن نا جائز قبضہ بڑھتا جا رہا ہے اور جگہ جگہ یہودی آباد یاں تعمیر ہو رہی ہیں۔ جبکہ دوسری طرف فلسطینیوں کے گھروں کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ پچاس لاکھ سے زیادہ فلسطینی بے گھر ہیں۔ لاکھوں شہید ہو چکے ہیں۔ ہزاروں بے قصور اسرائیلی جیلوں میں پڑے سڑ رہے ہیں اور جو کچھ آزادی کی زندگی گزار رہے ہیں وہ بھی ہمہ وقت خوف و دہشت کے سائے میں رہنے پر مجبور ہیں۔
اگر آپ کو یہ مضمون پسند نہیں آیا تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔