منگل, اکتوبر 8, 2024
اشتہار

تارو سنگھ کا قتل اور مسجد شہید گنج

اشتہار

حیرت انگیز

تاریخی اور ثقافتی اعتبار سے تقسیمِ ہند سے قبل بھی لاہور کی مسجد شہید گنج اہمیت رکھتی تھی۔ اس مسجد کو 1653ء میں داراشکوہ کے خانِ ساماں عبداللہ خاں نے تعمیر کروایا جو بعد میں مسلمانوں اور سکھوں کے درمیان متنازع فیہ مسئلہ بن گئی۔

کہتے ہیں کہ پنجاب کے گورنر معینُ الملک نے سکھوں کی ایک برگزیدہ ہستی تارو سنگھ کو یہاں قتل کروا دیا تھا جس کے بعد سکھوں نے لاہور میں اپنے عہدِ حکومت میں اس جگہ کو شہید گنج کا نام دے کر ایک گردوارے میں تبدیل کر دیا۔ ماقبل مسلمانوں کی یہ عبادت گاہ عبداللہ خان مسجد مشہور تھی۔ انتقام کی آگ بھڑکی تو سکھوں نے معینُ الملک کا مقبرہ بھی مسمار کردیا اور اس کی نعش کی بے حرمتی کی گئی۔ یہ معمولی واقعہ تو نہیں تھا، لہٰذا مسلمان اکابرین اور علماء کو بھی میدان میں آنا پڑا کہ اس واقعے نے لاہور کی سیاسی فضا کو مکدر اور عوام میں بے چینی پیدا کردی تھی اور یہ بے چینی کشیدگی میں تبدیل ہوگئی تھی۔

ہندوستان میں جن دنوں‌ تحریکِ آزادی زوروں پر تھی اور انگریزوں‌ سے اقتدار کی منتقلی کے لیے کانگریس اور مسلم لیگ کے پرچم تلے لاکھوں ہندوستانی جمع ہوچکے تھے، لاہور میں اس مسجد کے تنازع نے ایسا زور پکڑا کہ کئی جانیں ضایع ہوگئیں۔ یہ معاملہ جون 1935ء میں اس وقت شروع ہوا جب سکھوں کے جتھے لاہور آنے لگے۔ کسی نے یہ افواہ پھیلا دی کہ وہ مسجد کو شہید کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر دونوں قوموں میں زبردست کشیدگی پیدا ہو گئی۔ معاملہ ہوا بھی یہی اور ادھر جب سکھوں نے مسجد کو گرانا شروع کیا تو مسلمان بھی مسجد کا رخ کرنے لگے اور یوں پولیس سے تصادم کے نتیجے میں بہت سے مسلمان شہید ہو گئے۔ان نازک حالات میں جب کہ دونوں قوموں کے درمیان کشیدگی اور فرقہ وار منافرت اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی تو قائداعظم لاہور تشریف لائے اور اس کشیدگی کو ختم کرانے میں کردار ادا کیا۔

- Advertisement -

قائداعظمؒ نے لاہور میں پنجاب کے گورنر سے ملاقات کی اور سکھ لیڈروں سے ملاقاتیں کیں۔ مختلف جلسوں سے خطاب کیا۔ دہلی واپس جانے سے قبل شہید گنج مصالحتی بورڈ کے نام سے ایک کمیٹی قائم کی گئی جس میں علامہ اقبالؒ بھی شامل تھے۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ قائداعظمؒ کی کوششوں سے اس فرقہ وارانہ کشیدگی پر قابو پالیا گیا تھا۔ لیکن یہ معاملہ ابھی حل طلب تھا۔ ادھر شہید گنج سے متعلق مقدمہ عدالت میں بھی چل رہا تھا۔ ڈسٹرکٹ جج کی عدالت سے فیصلہ مسلمانوں کے خلاف ہوا۔ چنانچہ اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی۔ بعد میں مسجد شہید گنج کے قضیہ نے ہندوستانی سیاست پر بھی اثر انداز ہونا شروع کر دیا تھا۔ محمد علی جناح کی لاہور آمد اور عدالتی فیصلے کے بعد مسلمان قیادت میں‌ کچھ باتوں‌ پر اختلافِ رائے بھی سامنے آیا اور اس معاملے نے طول پکڑا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں