سابق صدر آزار جموں و کشمیر مسعود احمد خان کا کہنا ہے کہ شواہد موجود ہیں بھارت نے ہی امریکا کے سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو سے رابطہ اور جنگ بندی کیلیے منت سماجت کی۔
مسعود احمد خان نے کی اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارت کا مؤقف دنیا میں کسی نے تسلیم نہیں کیا، پاکستان نے کل میدان جنگ میں بری، فضائی اور ٹیکنالوجی میں اپنی اہمیت ثابت کر دی، پاکستان نے جو ٹیکنالوجی رافیل کیلیے استعمال کی بھارت کو اس کا اندازہ بھی نہیں تھا۔
سابق صدر آزاد کشمیر کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا تجارت بڑھانے کا بیان کا مقصد ہے پاکستان اور بھارت دونوں برابر ہیں، پاکستان نے ثالثی پر امریکا کا شکریہ ادا کیا لیکن بھارت نے ادا نہیں کیا۔
یہ بھی پڑھیں: پاک بھارت جنگ بندی معاہدے میں مارکو اور وینس نے واضح فرق ڈالا: امریکا
انہوں نے کہا کہ خطے میں امن کیلیے نئے باب کا آغاز ہو رہا ہے، جنگ بندی ہو چکی ہے اب کچھ عرصے بعد غیر جانبدار جگہ پر مذاکرات ہو سکتے ہیں، مقبوضہ کشمیر کے عوام کو حق خودارادیت ملنا چاہیے۔
’دیکھنا ہوگا کہ بھارت جنگ بندی کے بعد بھارت مذاکرات کیلیے تیار ہے یا نہیں، بھارت کی طرف سے جنگ بندی پائیدار ہے یا نہیں۔ مذاکرات کی میز تک پہنچنے کیلیے بہت سے مراحل طے کرنا ہوں گے۔ پاکستان کا ایک مؤقف یہ ہے کہ بھارت نے سندھ طاس معاہدہ غیر قانونی طور پر معطل کیا۔‘
مسعود احمد خان نے مزید کہا کہ بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کر کے خود کو عالمی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا، بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنا بھی اہم معاملہ ہے، پاک بھارت مذاکرات کیلیے چین سمیت دیگر ممالک کا ثالثی گروپ بنے، یہ مشکل ہے کہ بھارت چین اور دیگر ممالک کے ثالثی گروپ پر تیار ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی کے اعتبار سے موجودہ صورتحال چین اور پاکستان کی مشترکہ فتح ہے، پاکستان کی دنیا میں اہمیت بڑھی ہے اس کے ساتھ چین کی بھی بڑھی ہے، کسی پیشگی شرائط یا اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے جنگ بندی کی گئی ہے۔
سابق صدر آزاد جموں و کشمیر نے کہا کہ بھارت کے ساتھ اس وقت جنگ بندی کے سوا کوئی بات نہیں ہوئی، ہمیں خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے بھارت سندھ طاس معاہدہ معطلی کا فیصلہ واپس نہیں لے گا، بھارت نے جنوری 2023 میں بھی پیغام بھیجا تھا کہ سندھ طاس معاہدے پر نظر ثانی چاہتا ہے۔