ستّر کی دہائی میں مسعود اشعر کی کہانیاں ادبی دنیا میں ان کی پہچان کا سبب بنی تھیں اور ان کا یہ سفر افسانوں کے مجموعوں، تراجم اور کالم نویسی کے ساتھ 5 جولائی 2021ء کو تمام ہوگیا۔ افسانہ نگار، مترجم، اور کالم نگار مسعود اشعر کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے تمغائے حسنِ کارکردگی اور ستارۂ امتیاز بھی دیا گیا تھا۔
مسعود اشعر رام پور سے ہجرت کرکے آئے تو ملتان اور لاہور میں قیام کیا اور تخلیقی کاموں کے ساتھ ادبی سرگرمیوں اور صحافت میں مشغول ہوگئے۔ مسعود اشعر لاہور اور ملتان میں روزنامہ احسان، زمین دار، آثار اور امروز سے وابستہ رہے۔ وہ ایک معروف علمی ادارے کے سربراہ بھی تھے۔ روزنامہ جنگ میں ان کا کالم ہفتہ وار شایع ہوتا تھا۔ شمیم حنفی نے ان کے بارے میں لکھا تھا، "ان میں ایک بھری پری دنیا آباد دکھائی دیتی ہے۔ مذہب، سیاست، ادب، آرٹ، علوم، ہم جیسے عام انسانوں کی زندگی کے ہر زاویے کو وہ ایک سی ہمدردی، سچائی، اور دل چسپی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ اور کیا خوب دکھاتے ہیں۔ کہیں کسی طرح کی بدمذاقی نہیں، بے جا طنز اور برہمی نہیں۔ مبالغہ نہیں، مصلحانہ جوش وخروش نہیں۔
مسعود اشعر کی شخصیت، اپنی سادگی کے باوجود بہت پرکشش ہے۔ ماہ سال کی گرد نے بھی اس کی آب و تاب میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔ لہٰذا اپنی سادگی میں بھی آراستہ نظر آتے ہیں۔ نکھرے اور سنورے ہوئے۔ یہی حال ان کے کالموں کا ہے۔ بہ ظاہر سیدھی سادی، شفاف نثر لکھتے ہیں۔ کہیں بیان کی پینترے بازی نہیں۔ ابہام اور تصنع نہیں۔ سجاوٹ اور تکلف نہیں۔ مگر جب بھی جو کچھ کہنا چاہتے ہیں، کہہ جاتے ہیں۔ معاملہ ارباب اقتدار کا ہو، یا ادیبوں، عالموں اور عام انسانوں کا۔ مسعود اشعر سب کو ایک سی توجہ اور بے لوثی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ صحافتی احتیاط کے ساتھ ساتھ ان کی طبیعت میں تہہ داری کا اور زندگی کے ہر عمل، ہر شعبے کی اخلاقی جہت کے وجود کا احساس بھی نمایاں ہے۔ صحافت کی دنیا کے طویل تجربے اور اپنی فطرت کے تقاضوں سے مر بوط، یہی انداز و اوصاف مسعود اشعر کے افسانوں اور ان کی نثر میں بھی نظر آ تے ہیں۔”
مسعود اشعر کو ’’آنکھوں پر دونوں ہاتھ‘‘ کی اشاعت کے ساتھ ہی ادبی حلقوں اور قارئین میں پہچان مل گئی تھی اور بعد میں انھوں نے کئی موضوعات کو اپنی کہانیوں میں سمیٹا۔ ’’اپنا گھر‘‘ مسعود اشعر کی وہ کتاب ہے جس کے اشاعت تک ان کے ہاں موضوعات میں ایک تنوع نظر آتا ہے۔
رام پور، اتر پردیش میں 1930ء میں آنکھ کھولنے والے مسعود اشعر کا اصل نام مسعود احمد خان تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد دو شہروں نے ان کو اپنی جانب کھینچا جن میں پہلا پڑاؤ تو ملتان میں تھا اور پھر وہ لاہور آگئے جہاں ان کے فکشن کو نئے موضوعات بھی ملے۔
مسعود اشعر کے افسانوں کے چار مجموعے شائع ہو چکے ہیں ۔ ’’آنکھوں پر دونوں ہاتھ‘‘ کے بعد ان کی کتاب ’’سارے افسانے‘‘ اور’’اپنا گھر‘‘ افسانوی مجموعے تھے اور تین سال قبل ’’سوال کہانی‘‘ کی اشاعت ہوئی اور یہ بھی افسانوں کی کتاب تھی۔