تازہ ترین

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 4 کسٹمز اہلکار شہید

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے...

مسعود مارا جائے گا!

پورا نام ایم مسعود مگر مشہور ہوئے مسعود کھدر پوش سے۔ کیوں کہ کھدر کا کرتا پاجاما پہنتے۔ حالاں کہ سول سروس آف پاکستان سے متعلق تھے بلکہ برصغیر کی تقسیم سے پہلے انڈین سول سروس میں تھے۔

1960 میں ایوب خان اور جواہر لال نہرو کے درمیان دریاؤں کے پانی کے معاہدے پر دستخط ہوئے۔ ایوب خان نے اپنی خود نوشت سوانح میں اس معاہدے کا تفصیل سے ذکر کیا ہے ان کا خیال تھا کہ بھارت کے ساتھ اس معاہدے سے ایسی فضا پیدا ہوگی کہ کشمیر کے مسئلے کے حل کی کوئی صورت نکل آئے گی۔

مسعود کھدر پوش ان دنوں ایگریکلچرل کمشنر تھے اور شہاب صاحب سے ملنے ایوان صدر آیا کرتے تھے۔ راقم سے بھی دعا سلام ہوتی تھی، معاہدہ پر دستخط ہوئے ابھی چند روز ہی ہوئے تھے کہ ان کا دو صفحات پر حاوی سرکاری پیڈ پر ٹائپ شدہ خط ایوب خان کے نام موصول ہوا جو ہر لحاظ سے قابل گرفت تھا۔

خط میں معاہدے پر سخت تنقید کی گئی تھی لہجہ میں گستاخی تھی اور یہاں تک لکھا تھا کہ جناب صدر آپ کو قوم کبھی معاف نہیں کرے گی۔ میں نے لفافہ کھولا تو شہاب صاحب کے پاس لے گیا۔ انھوں نے پڑھا تو کہنے لگے کہ میرے پاس چھوڑ جاؤ۔ دوسرے دن دوبارہ بلاکر واپس کردیا کہ پریذیڈنٹ صاحب کو دوسری ڈاک کے ساتھ بھیج دو۔ اگلے دن پریزیڈنٹ صاحب سے ڈاک واپس آئی تو ایوب خان نے حاشیے میں سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو لکھا تھا:
Will somebody put some sense into this man’s head
شہاب صاحب نے ڈاک دیکھ کر میرے پاس بھیج دی میں یہ خط پھر ان کے پاس لے گیا کہ کیا کروں۔ ایوب خان کے حکم پر عمل درآمد کا مطلب مسعود کھدر پوش کا شکنجہ کسنا تھا۔ شہاب صاحب سوچ میں پڑگئے کہنے لگے مسعود مارا جائے گا۔ ایسا کرو کچھ دن اس خط کو اپنے پاس رکھ چھوڑو میں پریذیڈنٹ صاحب سے بات کروں گا۔

بعد میں جب بھی پوچھا جواب دیا ابھی رکھیے موقع نہیں مل سکا۔ ایک مہینہ، دو مہینے، کرتے کرتے سال کے قریب گزر گیا اور خط میرے پاس پڑا رہا۔

ایک دن مسکراکر کہنے لگے پریذیڈنٹ سے بات ہوگئی ہے خط کو ضایع کر دو۔ میں مطلب سمجھ گیا چناں چہ واپس کمرے میں آکر الماری سے خط نکالا اور پرزے پرزے کردیا۔

اس دوران مسعود صاحب معمول کے مطابق شہاب صاحب سے گپ شپ کے لیے کئی دفعہ تشریف لائے۔ مجھ سے پہلے کی طرح دعا سلام ہوتی رہی مگر اب ان سے مصافحہ کرنے میں لطف سوا تھا ایسے لگتا تھا جیسے واقعی کسی نر مرد سے مصافحہ کیا جارہا ہے۔

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

(یہ سطور م۔ ب خالد کی کتاب سے لی گئی ہیں‌ جو اہم اور یادگار واقعات پر مشتمل ہے. کتاب کا نام ایوانِ صدر میں سولہ سال ہے)

Comments

- Advertisement -