کراچی: پولیس حکام نے کہا ہے کہ ابتدائی طور پر مولانا عادل خان پر فائرنگ کا واقعہ فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کا لگتا ہے، مقدمہ ان کے لواحقین سے مشاورت پر درج ہوگا۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق جامعہ فاروقیہ کراچی کے مہتمم مولانا ڈاکٹر عادل خان اور ان کے ڈرائیور کے قتل کے واقعے پر پولیس حکام نے کہا ہے کہ کیس کی تحقیقات جاری ہیں، لواحقین کے ساتھ رابطے میں ہیں، مشاورت کے بعد مقدمہ درج ہوگا۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ جائے وقوع سے گولیوں کے 5 خول ملے جو فرانزک کے لیے بھجوا دیے گئے، بتدائی معلومات کے مطابق حملہ آوروں کی تعداد 3 تھی، قمیض شلوار میں ملبوس شخص نے پیدل آ کر نشانہ بنایا، فائرنگ کے بعد ملزمان موٹر سائیکلوں پر فرار ہوئے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان جہاں فرار ہوئے ان علاقوں کی سی سی ٹی وی کاجائزہ لیا جا رہا ہے، ممکنہ طور پر ملزمان پہلے سے مولانا ڈاکٹر عادل کی ریکی کر چکے تھے، حملے میں محفوظ مولانا کے بیٹے انس سے بھی معلومات لی جائیں گی۔
مولانا عادل خان جامعہ فاروقیہ کے احاطے میں سپرد خاک
ذرایع نے کہا ہے کہ مولانا عادل پر حملے کے معاملے پر پولیس ہیڈ آفس میں آج ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن کی زیر صدارت اجلاس ہوگا، اجلاس میں واقعے کی تحقیقات سے متعلق حکمت عملی پر غور کیا جائےگا، یہ فیصلہ بھی ہوگا کہ مقدمہ سی ٹی ڈی میں درج کیا جائے یا متعلقہ تھانے میں۔
ادھر واقعے کی ایک اور سی سی ٹی وی اور ملزم کی تصاویر بھی منظر عام پر آگئی ہیں، فوٹیج میں ایک ملزم موٹر سائیکل پر ان کا تعاقب کرتے نظر آیا ہے، موٹر سائیکل سوار ملزم فائرنگ کرنے والے کو لے کر فرار ہوا تھا، فوٹیج میں پینٹ شرٹ، کالا ہیلمٹ پہنے موٹر سائیکل سوار کو دیکھا گیا۔
سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق مولانا عادل پر فائرنگ کل شام 7 بج کر 40 منٹ پر کی گئی تھی، دہشت گردوں نے موٹر سائیکل سوار ساتھی کا 2 منٹ تک انتظار بھی کیا۔