جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ کل الیکشن کرا دیں ہم پوری طرح تیار ہیں، پی ڈی ایم اتحادی حکومت نے مردم شماری پر الیکشن کا فیصلہ کیا۔
مولانا فضل الرحمان کا نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ حلقہ بندیوں کا معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس ہے وہ فیصلہ کرے کب الیکشن کرانا ہیں۔ صدر کو اختیار نہیں کہ الیکشن کی تاریخ دیں، غیرآئینی اقدام ہوگا۔ صدر اب پالیسی معاملات نہ چھیڑیں روزمرہ کے امور دیکھیں۔
انھوں نے کہا کہ کیا ہم الیکشن شیڈول کا اختیار سپریم کورٹ یا صدر کو دے دیں، پی ڈی ایم کے ساتھ پیپلزپارٹی دوسری بڑی قوت تھی۔ پی ڈی ایم اتحادی حکومت نے مردم شماری پر الیکشن کا فیصلہ کیا۔
فضل الرحمان نے کہا کہ ن لیگ حکومت نے جی ڈی پی گروتھ 6 فیصد کی، پی ٹی آئی نے صفر کر دی تھی۔ پی ٹی آئی نے ملک کو وہاں لا کھڑا کیا جہاں ڈیفالٹ ہونے جا رہا تھا۔ ہم نے 16 ماہ میں قرض کا بوجھ کم کیا ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا۔
انھوں نے کہا کہ نگراں حکومت کو وہ ملک ملا جو ڈیفالٹ کے خطرے سے نکل چکا ہے۔ ہماری کچھ سیاسی غلطیوں کی وجہ سے پی ٹی آئی کو فائدہ ہوا۔
جب پی ٹی آئی کا گراف نیچے تھا ہم کہتے تھے الیکشن کی طرف جائیں۔ الیکشن کے بجائے ہم پارلیمنٹ کی طرف چلے گئے جوغلطی تھی۔ جب ہم پارلیمنٹ کی طرف آگئے تو ہماری مجبوری مختلف ہوگئی۔ پارلیمنٹ کی طرف آگئے تو الیکشن نہیں کرا سکتے تھےمدت پوری کرنا تھی۔
مولانا کے مطابق کہا تھا ہم ملک کو نہیں اٹھا سکیں گے، پی ٹی آئی کا گراف اوپر ہمارا نیچے جائے گا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے ساتھ سودے بازی کی بنیاد پر کسی بھی عمل کے خلاف تھے۔ ہم نے کہا تھا چیئرمین پی ٹی آئی بغیرشرط مستعفی ہو، عدم اعتماد خود بخود ختم ہوجائے گی۔
انھوں نے کہا کہ قمر جاوید باجوہ ہمارے آرمی چیف رہے، اخلاقی طور پر بیان بازی سے گریز کیا۔ قمر جاوید باجوہ نے بھی سوچا اب اس آدمی کو نہیں ہونا چاہیے ہم نے اس کو ویلکم کیا۔
فضل الرحمان نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی بظاہر کچھ کہتے تھے اندر صورتحال کچھ اور ہوتی تھی، جن کو پی ٹی آئی نے وفاقی وزیر بنایا اور بڑے عہدے دیے آج وہ بھی ان کے ساتھ نہیں۔ جو اپنی قیادت کے ساتھ ایسا سلوک کریں وہ میرے یا کسی اور کے ساتھ کیا کریں گے۔
انھوں نے کہا کہ چوہدری شجاعت کے ساتھ ان کے بھائی نے کیا کیا سب نے دیکھا۔ پرویز الٰہی اپنے گھر اور بڑے بھائی کے ساتھ وفاداری نہیں کر سکے۔ جو آدمی مفادات کی سیاست کرتا ہے وہ بھگتتا بھی ہے۔ میرے 2011 سے لے کر آج تک مؤقف میں کوئی جھول نہیں آیا۔ میں کسی بھی سیاستدان کو جیل میں رکھنے کے حق میں نہیں ہوں۔