تقریباً 85 برس پہلے کی بات ہے۔ اعظم گڑھ کے ایک گاؤں میں ایک زمین دار مولا بخش نام کے رہتے تھے۔
مولا بخش اپنے باپ کی تنہا اولاد تھے اور ان کے باپ ابھی زندہ تھے۔ ان کے رشتہ داروں نے سوچا کہ اگر مولا بخش کا خاتمہ کر دیا جائے، تو ان کی جو اولاد ہے وہ محجوب ہوجائے گی، کیوں کہ دادا زندہ ہوگا اور باپ مرچکا ہوگا، اس طرح ان کے حصّے کی ساری جائیداد ہم کو مل جائے گی، چنانچہ اُنہوں نے خفیہ طور پر مولا بخش کے قتل کا منصوبہ بنایا۔
بقر عید قریب تھی۔ مولا بخش اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر شہر روانہ ہوئے تاکہ وہاں سے عید کا سامان خرید کر لائیں۔ ان کے دشمن پہلے سے اس موقع کی تاک میں تھے۔ ادھر مولا بخش روانہ ہوئے اور اُدھر دشمنوں نے جمع ہو کر مشورہ کیا، پوری اسکیم طے ہوگئی۔
عصر کا وقت تھا۔ مولا بخش کا گھوڑا گاؤں سے تین میل کے فاصلے پر ایک جنگل میں داخل ہوا۔ ‘‘ٹھہر جاؤ۔’’ اچانک ایک کرخت آواز نے مولابخش کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ دیکھا تو چار آدمی لاٹھیوں اور بلموں سے پوری طرح مسلّح ان کے سامنے کھڑے تھے۔ ایک آدمی نے لپک کر گھوڑے کی لگام پکڑ لی۔ اب مولا بخش کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ گھوڑے سے اُتر پڑیں۔
‘‘آخر تم لوگ کیا چاہتے ہو؟’’ مولا بخش نے اضطراب آمیز لہجے میں پوچھا۔
‘‘تمہاری جان!’’ بلم کے پیچھے کھڑے ہوئے خونخوار چہروں نے جواب دیا۔
مولا بخش صورتِ حال کی نزاکت پوری طرح سمجھ چکے تھے۔ انہوں نے چند لمحے سوچا اور پھر جواب دیا: ‘‘اچھا عصر کا وقت ہوگیا ہے مجھے نماز پڑھ لینے دو۔’’
‘‘ہاں تم نماز پڑھ سکتے ہو۔’’ مولا بخش صاف زمین پر نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔ وہ ابھی سجدے میں تھے کہ ان میں سے ایک معمر شخص نے کہا:’’دیکھتے کیا ہو، اس سے بہتر وقت نہیں مل سکتا۔ اگر کہیں سے کوئی راہی آ نکلا، تو سارا منصوبہ دھرا رہ جائے گا۔ اس کی بات سب کی سمجھ میں آگئی اور فوراً ان میں سے دو طاقت ور آدمی مولا بخش کے دائیں اور بائیں کھڑے ہوگئے۔
سجدے کی حالت ہی میں ایک لاٹھی گردن کے نیچے رکھی گئی اور دوسری گردن کے اوپر، اس کے بعد دونوں طرف سے چاروں آدمیوں نے مل کر دبایا، تو مولا بخش کی زبان نکل پڑی، تھوڑی دیر بعد وہ اس دنیا میں نہیں تھے۔ پھر دشمنوں نے گھوڑے کو بھی قتل کیا اور گھوڑے اور سوار دونوں کی لاشیں قریب کے دریا میں بہا دیں۔
یہ برسات کا زمانہ تھا، اسی رات موسلا دھار بارش ہوئی اور قریباً ایک ہفتے تک جاری رہی۔ اس بارش میں نہ صرف قتل کے تمام ثبوت دُھل کر ختم ہوگئے، بلکہ طغیانی پر آئے ہوئے دریا میں لاش بھی ہمیشہ کے لیے غائب ہوگئی۔ مولا بخش کے صاحبزادے عبد الصمد اور ان کے داماد حامد حسین دو ہفتے تک بارش اور سیلاب میں مارے مارے پھرے، مگر مولا بخش کا کوئی سراغ نہ ملا۔
جس وقت مولا بخش کا گھوڑا جنگل میں داخل ہوا اور چاروں آدمیوں نے مل کر اُنہیں گھیر لیا، تو مولا بخش کے پیچھے کچھ فاصلے پر گاؤں کا ایک بنیا بھی تھا، جو بازار سے آرہا تھا۔ اس نے جیسے ہی یہ منظر دیکھا، فوراً کھسک کر ایک جھاڑی میں چھپ گیا۔ وہ وہیں سے پورا منظر دیکھ رہا تھا۔ اس نے بہت دنوں بعد مولا بخش کے وارثوں کو سارا قصہ کہہ سنایا۔ رپورٹ ہوئی، پولیس آئی، مگر نہ لاش برآمد ہوئی اور نہ قتل کا کوئی ثبوت فراہم ہوا۔ اس وجہ سے مقدمہ قائم نہ ہوسکا۔ چاروں قاتل بہت خوش تھے کہ قتل بھی کیا اور سزا سے بھی بچے اور مقتول کی ساری جائیداد کا حق بھی مل گیا۔
مگر آخری عدالت کا فیصلہ ابھی باقی تھا۔ اس کے بعد جلد ہی یہ واقعہ رونما ہوا کہ یکے بعد دیگرے وہ چاروں آدمی بیمار ہوئے جنہوں نے مولا بخش کو قتل کیا تھا اور ہر ایک کی بیماری موت کی بیماری تھی۔ پہلا شخص جب مرنے کے قریب ہوا تو لوگوں نے سُنا کہ وہ سخت اضطراب کی حالت میں کچھ کہہ رہا تھا۔ قریب آکر کان لگایا، تو صاف طور سے یہ الفاظ اس کی زبان سے نکل رہے تھے: ‘‘مولا بھائی اپنے گھوڑے سے ہم کو مت کچلیے، مولا بھائی اپنے گھوڑے سے ہم کو مت کچلیے۔’’
اسی طرح چاروں قاتل بیمار ہوئے اور چاروں اپنے آخر وقت میں یہی کہتے ہوئے مر گئے۔ گویا مقتول اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر ان کے جسم کو گھوڑوں کی ٹاپوں سے روند رہا تھا۔ موت کے بعد جب نہلانے کے لیے ان کے جسم کا کپڑا اتارا گیا، تو لوگوں نے دیکھا کہ ان کے جسم پر جگہ جگہ گھوڑے کے سموں کے نشان پڑے ہوئے ہیں، جیسے واقعی گھوڑے نے اپنے سُموں سے اُنہیں پامال کیا ہو۔ اس طرح چاروں آدمیوں کا خاتمہ ہوگیا اور وہ یا ان کی اولاد مولا بخش کی جائیداد بھی حاصل نہ کرسکی کیوں کہ دادا زندہ تھے اور اُنہوں نے مولا بخش کے لڑکوں کے نام ان کا پورا حصہ لکھ دیا۔
(ہندوستان کے معروف عالمِ دین، مفکر اور مصنؑف وحید الدین خان کے قلم سے ایک واقعہ)