اردو زبان کے محسن اور پاکستان کے نامور ماہر لسانیات ڈاکٹر مولوی عبدالحق کی کو گزرے 58 برس بیت گئے ہیں، آپ برِ صغیر پاک ہند کے عظیم اردو مفکر، محقق، ماہر لسانیات، معلم، بانی انجمن ترقی اردو اور اردو کالج کے بانی تھے، آپ کو بابائے اردو کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
مولوی عبدالحق 20 اپریل،1870ء کوبرطانوی ہندوستان کے ضلع میرٹھ کے ہاپوڑ نامی قصبے میں پیدا ہوئے، مولوی عبدالحق کے بزرگ ہاپوڑ کے ہندو کائستھ تھے، جنہوں نے عہدِ مغلیہ میں اسلام کی روشنی سے دلوں کو منور کیا اور ان کے سپرد محکمہ مال کی اہم خدمات رہیں۔ مسلمان ہونے کے بعد بھی انہیں (مولوی عبدالحق کے خاندان کو) وہ مراعات و معافیاں حاصل رہیں جو سلطنت مغلیہ کی خدمات کی وجہ سے عطا کی گئیں تھیں۔ ان مراعات کو انگریز حکومت نے بھی بحال رکھا۔
مولوی عبدالحق نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی پھر میرٹھ میں پڑھتے رہے۔ 1894ء میں علی گڑھ کالج سے بی اے کیا۔ علی گڑھ میں سرسید احمد خان کی صحبت میسر رہی۔ جن کی آزاد خیالی اور روشن دماغی کا مولوی عبدالحق کے مزاج پر گہرا اثر پڑا۔ 1895ء میں حیدرآباد دکن میں ایک اسکول میں ملازمت کی اس کے بعد صدر مہتمم تعلیمات ہوکر اورنگ آباد منتقل ہوگئے۔ ملازمت ترک کرکے عثمانیہ اورنگ آباد کالج کے پرنسپل ہوگئے اور 1930ء میں اسی عہدے سے سبکدوش ہوئے۔
بابائے اُردومولوی عبدالحقؒ کو ابتدا ءہی میں ریاضی سے گہرا لگاؤ تھا جس نے اُنہیں غور و فکر اور مشاہدے کا عادی بنا دیا ۔اس کے علاوہ انہیں فارسی اور اُردو شاعری، نثرنگاری ،تاریخ ،فلسفہ اور مذہب کا مطالعہ کرنے کا بھی شوق تھا ان علوم اور ادب کے مطالعے نے مولوی عبدالحقؒ کے قلب و ذہن پر مثبت اثرات مرتب کئے انہیں اپنے اطراف سے گہری دلچسپی پیدا ہوئی ۔
غور و فکر ،مطالعے اور مشاہدے کا ذوق مزید گہرا ہوا ان کی فکر میں وسعت ،تخیل میں بلندی اور زبان و بیان کی باریکیاں واضح ہوئیں ۔بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق ؒ کے بے شمار کارنامے ہیں طلبِ آگہی نے انہیں مزید متحرک اور مضطرب بنا دیا تھا۔ پہلی بار مولوی عبدالحقؒ کی کا وشوں سے دکنی زبان کے علمی اور ادبی شہ پارے سامنے آئے انہوں نے اپنی تحقیقی کاوشوں سے اس گوشہ ادب کی علمی اور لسانی اہمیت کو اُجاگر کیا۔
قدیم دہلی کالج کے حوالے سے بھی بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحقؒ نے اپنی انتھک محنت اور خلوص سے ”مرحوم دہلی کالج“ لکھ کر اس ادارے کی ادبی اور تعلیمی کاوشوں کو نمایاں کیا۔فورٹ ولیم کالج کی طرز سے ذرا ہٹ کر دوبارہ دہلی کالج قائم کیا جس سے بلاشبہ اُردو میں بیشتر مغربی ادب اور علوم سے آگہی کا موقع میسر آیا ۔
دہلی کالج نے اس دور کے طلبہ کی شخصیت اور ذہن سازی میں نمایاں کردار ادا کیا ۔بابائے اُردو مولوی عبدالحقؒ نے نہ صرف اُردو میں تنقید نگاری، مقدمہ نگاری اور معنویت عطا کی بلکہ اُردو میں پہلی بار حقیقی تبصرہ، جائزہ اور لسانی اکتساب صرف بابائے اُردو مولوی عبدالحقؒ کی مقدمہ نگاری میں میسر آیا انہوں نے اُردو میں تبصرہ نگاری کو ایک نیا رنگ اور ڈھنگ عطا کیا۔جنوری 1902ء میں آل انڈیا محمڈن ایجوکیشن کانفرنس علی گڑھ کے تحت ایک علمی شعبہ قائم کیا گیا جس کانام انجمن ترقی اردو تھا۔ مولانا شبلی نعمانی اس کے سیکرٹری رہے تھے۔ 1905ء میں نواب حبیب الرحمن خان شیروانی اور 1909ء میں عزیز مرزا اس عہدے پر فائز ہوئے۔ عزیز مرزا کے بعد 1912ء میں مولوی عبدالحق سیکرٹری منتخب ہوئے جنھوں نے بہت جلد انجمن ترقی اردو کو ایک فعال ترین علمی ادارہ بنا دیا۔ مولوی عبدالحق اورنگ آباد (دکن ) میں ملازم تھے ،وہ انجمن کو اپنے ساتھ لے گئے اور اس طرح حیدر آباد دکن اس کا مرکز بن گیا۔
انجمن کے زیر اہتمام لاکھ سے زائد جدیدعلمی ، فنی اور سائنسی اصطلاحات کا اردو ترجمہ کیا گیا۔ نیز اردو کے نادر نسخے تلاش کرکے چھاپے گئے۔ دوسہ ماہی رسائل، اردو اور سائنس جاری کیے گئے۔ ایک عظیم الشان کتب خانہ قائم کیاگیا۔ حیدرآباد دکن کی عثمانیہ یونیورسٹی انجمن ہی کی کوششوں کی مرہون منت ہے۔ اس یونیورسٹی میں ذریعہ تعلیم اردو تھا۔
انجمن نے ایک دارالترجمہ بھی قائم کیا جہاں سینکڑوں علمی کتابیں تصنیف و ترجمہ ہوئیں۔ اس انجمن کے تحت لسانیات، لغت اور جدید علوم پر دو سو سے زیادہ کتابیں شائع ہوئیں۔ تقسیم ہند کے بعدانہوں نے اسی انجمن کے زیرِاہتمام کراچی، پاکستان اردو آرٹس کالج، اردو سائنس کالج، اردو کامرس کالج اور اردو لاء کالج جیسے ادارے قائم کیے۔ مولوی عبدالحق انجمن ترقی اردو کے سیکریٹری ہی نہیں مجسّم ترقّی اردو تھے۔ ان کا سونا جاگنا، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، پڑھنا لکھنا، آنا جانا، دوستی، تعلقات، روپیہ پیسہ غرض کہ سب کچھ انجمن کے لیے تھا۔
سنہ 1935ء میں جامعہ عثمانیہ کے ایک طالب علم محمد یوسف نے انہیں بابائے اردو کا خطاب دیا جس کے بعد یہ خطاب اتنا مقبول ہوا کہ ان کے نام کا جزو بن گیا۔ 23 مارچ، 1959ء کو حکومتِ پاکستان نے صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔
مولوی عبدالحق کی ویسے تو بے شمار تصانیف ہیں تاہم ان میں مخزنِ شعرا،اردو صرف ونحو، افکارِ حالی، پاکستان کی قومی و سرکاری زبان کا مسئلہ،سرسیداحمد خان، اور دیگر مقبولِ عالم ہیں۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق 16 اگست، 1961ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پا گئے۔ آپ وفاقی اردو یونیورسٹی کراچی کے عبدالحق کیمپس کے احاطے میں آسودۂ خاک ہیں، حکومتِ پاکستان نے ان کی یاد میں یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیا تھا۔