روسی ادب کی حیات تازہ میں میکسم گورکی کا نام بلند ترین مرتبہ رکھتا ہے۔ جدید انشا پردازوں میں صرف گورکی ہی ایسا ادیب ہے جو تالسٹائی کی طرح اکنافِ عالم میں مشہور ہے۔ اس کی شہرت چیخوف کی مقبولیت نہیں جو دنیا کے چند ممالک کے علمی طبقوں تک محدود ہے۔
گورکی کا کردار فی الحقیقت بہت حیرت افزا ہے، غریب گھرانے میں پیدا ہو کر وہ صرف تیس سال کی عمر میں روسی ادب پر چھا گیا۔
میکسم گورکی کا اصلی نام الیکسی میکس مووخ پیشکوف ہے۔ اس کا باپ میکسم پیشکوف ایک معمولی دکاندار تھا جو بعد ازاں اپنی علو ہمتی اور محنت کشی سے استرا خاں میں جہاز کا ایجنٹ بن گیا۔ اس نے نزہنی نوو گورو کے ایک رنگ ساز وسیلی کیشرن کی لڑکی سے شادی کی۔ جس کے بطن سے میکسم گورکی ۱۴ مارچ ۱۸۶۹ء کو پیدا ہوا۔ پیدائش کے فوراً بعد ہی باپ اپنے بچے کو استرا خاں لے گیا۔ یہاں گورکی نے ابھی اپنی زندگی کی پانچ بہاریں دیکھی تھیں کہ باپ کا سایہ اس کے سر سے اٹھ گیا۔ اب گورکی کی ماں اسے پھر سے اس کے دادا کے گھر لے آئی۔
گورکی نے اپنے بچپن کے زمانے کی داستان اپنی ایک تصنیف میں بیان کی ہے۔ اس میں اس نے اپنے جابر دادا اور رحم دل دادی کے کرداروں کی نہایت فنکاری سے تصویر کشی کی ہے، جس کے نقوش قاری کے ذہن سے کبھی محو نہیں ہو سکتے۔ جوں جوں کم سن گورکی بڑا ہوتا گیا، اس کے گرد و پیش کا افلاس زدہ ماحول تاریک سے تاریک تر ہوتا گیا۔ اس کی ماں نے جیسا کہ گورکی لکھتا ہے، ’’ایک نیم عاقل شخص سے شادی کر لی۔‘‘ اس شخص کے متعلق گورکی کی کوئی اچھی رائے نہیں ہے۔ کچھ عرصے کے بعد اس کی والدہ بھی اسے داغ مفارقت دے گئی اور ساتھ ہی اس کے دادا نے اسے خود کمانے کے لئے اپنے گھر سے رخصت کر دیا۔ قریباً دس سال تک نوجوان گورکی روس کی سرحدوں پر فکرِ معاش میں مارا مارا پھرتا رہا۔ کشمکش زیست کے اس زمانے میں اسے ذلیل سے ذلیل مشقت سے آشنا ہونا پڑا۔
لڑکپن میں اس نے ایک کفش دوز کی شاگردی اختیار کر لی۔ یہ چھوڑ کر وہ ایک مدت تک دریائے والگا کی ایک دخانی کشتی میں کھانا کھلانے پر نوکر رہا۔ جہاں ایک بوڑھے سپاہی نے اسے چند ابتدائی کتابیں پڑھائیں اور اس طرح اس کی ادبی زندگی کا سنگ بنیاد رکھا۔ ان کتابوں میں سے جو گورکی نے تختہ جہاز پر بوڑھے سپاہی سے پڑھیں، ایک کتاب ’’اڈلفو کے اسرار‘‘ تھی، ایک مدت تک اس کے زیر مطالعہ ایسی کتب رہیں جن کے اوراق عموماً کشت و خون اور شجاعانہ رومانی داستانوں سے لبریز ہوا کرتے تھے، اس مطالعہ کا اثر اس کی اوائلی تحریروں میں نمایاں طور پر جھلکتا ہے۔
پندرہ برس کی عمر میں گورکی نے قازان کے ایک اسکول میں داخل ہونے کی کوشش کی، مگر جیسا کہ وہ خود کہتا ہے، ان دنوں مفت تعلیم دینے کا رواج نہیں تھا۔ وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا بلکہ اسے بھوکوں مرنے سے بچاؤ حاصل کرنے کے لئے ایک بسکٹوں کے کارخانے میں کام کرنا پڑا۔ یہ وہی کارخانہ ہے جس کی تصویر اس نے اپنے شاہکار افسانے ’’چھبیس مزدور اور ایک دوشیزہ‘‘ میں نہایت فن کاری سے کھینچی ہے۔ قازان میں اسے ایسے طلبہ سے ملنے کا اتفاق ہوا، جنہوں نے اس کے دماغ میں انقلابی خیالات کی تخم ریزی کی۔ قازان کو خیرباد کہنے کے بعد وہ جنوب مشرق اور مشرقی روس کے میدانوں میں آوارہ پھرتا رہا۔ اس زمانہ میں اس نے ہر نوعیت کی مشقت سے اپنا پیٹ پالا۔ اکثر اوقات اسے کئی کئی روز فاقے بھی کھینچنے پڑے۔
۱۸۹۰ء میں وہ نزہنی میں رنگروٹ بھرتی ہونے کے لئے آیا۔ خرابی صحت کی بنا پر اسے یہ ملازمت تو نہ مل سکی مگر وہ نزہنی کے ایک وکیل مسٹر ایم اے لینن، کا بہت احترام کرتا ہے، چنانچہ اس نے اپنے افسانوں کا ایک مجموعہ مسٹر ایم اے لینن کے نام سے معنون کیا ہے۔ کے یہاں منشی کی حیثیت میں نوکر ہو گیا۔ اس وکیل نے اس کی تعلیم کی طرف بہت توجہ دی۔ تھوڑے عرصہ کے بعد ہی گورکی کے ذہنی تلاطم نے اسے مجبور کر دیا کہ وہ منشی گیری چھوڑ کر روس کی سرحدوں پر آوارہ پھرے۔ دراصل قدرت کو یہ منظور نہ تھا کہ مستقبل قریب کا ادیب اتنے عرصے تک دنیا کی نظروں سے روپوش رہے۔ خانہ بدوشی کی اس سیاحت کے زمانے میں گورکی نے اپنا قلم اٹھایا۔ ۱۸۹۲ء میں جب کہ وہ تفلس کے ایک ریلوے ورکشاپ میں ملازم تھا، اس کا پہلا افسانہ ’’ماکارشدرا‘‘ جو ایک نہایت دلچسپ رومانی داستان تھی، مقامی روزنامہ ’’قفقاز‘‘ میں شائع ہوا۔ اس افسانے میں اس نے خود کو اپنے قلمی نام گورکی سے متعارف کرایا۔ یہ نام اب ہر فرد بشر کی زبان پر ہے۔
کچھ عرصہ تک وہ اپنے صوبے کے اخباروں میں مضامین چھپوانے کے بعد اس قابل ہو گیا کہ اپنی تحریروں سے روپیہ پیدا کر سکے۔ مگر ’’اعلیٰ ادب‘‘ کے ایوان میں وہ اس وقت داخل ہوا، جب اس نے دوبارہ نزہنی میں اقامت اختیار کی۔ ۱۸۹۵ء میں اس کے افسانوں کا پہلا مجموعہ کتابی صورت میں شائع ہوا۔ ان افسانوں کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ فی الحقیقت روسی انشا پرداز کے لئے اس قسم کی شاندار کامیابی غیر مسبوق تھی۔ اس کتاب کے تعارف کے ساتھ ہی گورکی ایک غیر معروف جرنلسٹ سے ملک کا مشہور ترین انشا پرداز بن گیا۔
گورکی کی شہرت ’’پہلے انقلاب‘‘ تک قابل رشک تھی۔ ملک کے تمام اخبار اس کی تصاویر اور اس کے ذکر سے بھرے ہوتے تھے۔ ہر شخص اس کے سراپا کو ایک نظر دیکھنا اپنا فرض سمجھتا تھا۔ بین الملّی شہرت بھی فوراً ہی نوجوان مصنف کی قدم بوسی کرنے لگی۔ جرمنی بالخصوص اس پر لٹو ہو گیا۔ ۱۹۰۳ء اور ۱۹۰۶ء کے درمیانی عرصہ میں گورکی کی شاہکار تمثیل ’’تاریک گہرائیاں‘‘ برلن کے ایک تھیٹر میں متواتر پانچ سو راتوں تک اسٹیج ہوتی رہی۔
میکسم گورکی اب روس کی جمہوریت پسند دنیا کی سب سے زیادہ اہم اور مشہور شخصیت تھی۔ مالی نقطۂ نظر سے بھی اسے بہت اہمیت حاصل تھی۔ اس کی تصانیف کا پیدا کردہ روپے کا بیشتر حصہ انقلاب کی تحریک میں صرف ہوتا رہا۔ ۱۹۰۰ء میں روس کی فضا سخت مضطرب تھی۔ گرفتاریوں اور سزاؤں کی بھرمار تھی، چنانچہ گورکی گرفتار ہوا اور اسے پیٹرز برگ سے نکال کر نزہنی میں نظربند کر دیا گیا۔ پہلے انقلاب میں گورکی نے بڑی سرگرمی سے حصہ لیا۔ جنوری ۱۹۰۵ء میں اسے گرفتار کر لیا گیا۔ اس گرفتاری نے اکناف عالم میں گورکی کے چاہنے والے پیدا کر دیے۔ رہائی کے بعد گورکی نے ایک روزانہ اخبار شائع کیا جس کے کالم بالشویک تحریک کے نشو و ارتقاء کے لئے مخصوص تھے۔ اس روزنامے میں گورکی نے بیسویں صدی کے تمام روسی ادباء کو بیہودہ قرار دیتے ہوئے مقالوں کا ایک تانتا باندھ دیا۔ ان انشاء پردازوں میں جو اس کے نزدیک فضول تھے، تالسٹائی اور دوستو وسکی بھی شامل تھے، وہ انہیں ادنیٰ سرمایہ دار کا نام دیتا ہے۔
میکسم گورکی پر یہ پارے سعادت حسن منٹو کی تحریر سے لیے گئے ہیں جس میں مصنّف نے مختلف سیاسی اور ادبی ادوار کے ساتھ گورکی کی کہانیوں سے اقتباسات نقل کرتے ہوئے ان پر اپنی رائے دی ہے، لیکن ماں وہ ناول ہے جس نے دنیا بھر میں گورکی کی عظمت اور اس کے قلم کی دھاک بٹھا دی۔ آج بھی یہ ناول دنیا بھر میں پڑھا جاتا ہے اور گورکی زندہ ہے۔
18 جون 1936ء کو روس کا مشہور انقلابی شاعر، ناول نگار، افسانہ نگار، ڈراما نویس اور صحافی گورکی اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ اس نے روس اور دنیا کے مظلوم طبقے و پسے ہوئے لوگوں میں امید کی ایک نئی لہر پیدا کی اور تاریخ میں اپنا نام لکھوانے میں کام یاب ہوا۔