پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لیے کوشاں روحیل ورنڈ ایک طویل عرصے سے تعلیمی سرگرمیوں سے وابستہ ہیں اور ان کی خدمات کے اعتراف میں حال ہی میں ان کا نام ورلڈ سمٹ ایوارڈز کے ہال آف فیم میں شامل کیا گیا ہے۔
روحیل ورنڈ کا تعلق فیصل آباد سے ہے اور تعلیم کے فروغ کے لیے ان کا سولر نائٹ اسکول کا آئیڈیا تیزی سے ترویج پارہاہے اور اسے دنیا بھر میں سراہا گیا ہے ، پاکستان میں نائٹ اسکولز کا تصور تو طویل عرصے سے موجود ہے لیکن یہ وہیں ممکن تھا جہاں روشنی کا انتظام ممکن ہو ،تعلیم کی راہ کی اس سب سے بڑی رکاوٹ کو روحیل نے سولر بیگز استعمال کرکے دور کیا ہے۔
محمد روحیل ورنڈ فیصل آباد میں دن بھر مزدوری کرنے والے بچوں کو رات کے وقت شمسی توانائی سے تعلیم دیتے ہیں جبکہ انھوں نے لاہور میں بھی سولر اسکول بیگز مزدور بچوں میں تقسیم کئے، اس سلسلے کو پوری دنیا میں مانیٹر کیا جاتا ہے۔
آئیے ان سے گفتگو کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ تعلیم کے فروغ کا یہ سفر کیسا گزرا ، کیا رکاوٹیں پیش آئیں اور مستقبل کے کیا منصوبے ہیں۔
سوال: اپنے بارے میں بتائیں ، فلاحی سرگرمیوں کی طرف آنے کا خیال کیسے آیا؟
جواب: میرا نام محمد روحیل ورنڈ ہے اور میں ایک ایسا پاکستانی ہو ں جس کی آنکھوں میں اپنے ملک کے لیے کچھ خواب ہیں۔ گزشتہ کئی سال سےمیں ملک میں غربت ، جہالت ، بیروزگاری اور دہشت گردی کا سبب بننے والے عوامل سے جنگ کررہا ہوں ۔ آج سے دس سال پہلے میں نے ایک پراجیکٹ سے اپنے مشن کا آغاز کیا تھا جس کا مقصد نوجوانوں کو آگاہی فراہم کرنا تھا، اس پراجیکٹ پر مجھے دنیا کا سب سے بڑا یوتھ ایوارڈ بھی دیا گیا تھا جس کے مقابلے میں دنیا کے 138 ملکوں سے دو ہزار سے زائد افراد شریک تھے۔
ڈگری تو وہ رسید ہے جو آپ تعلیم کے حصول کے لیے صرف کردہ وقت کے
نتیجے میں حاصل کرتے ہیں، تعلیم یافتہ وہ ہے جسے شعور حاصل ہوجائے
سوال: آپ کتنے عرصے سے فلاحی سرگرمیوں سے وابستہ ہیں، تعلیم کو پہلی ترجیح کیوں تصور کیا؟
جواب: میں گزشتہ ۱۲ سال کے عرصے سے فلاحی سرگرمیوں سے وابستہ ہوں اور میرے نزدیک پاکستان کے تمام مسائل کا حل تعلیم میں پوشیدہ ہے ، اگر قوم کے اچھے طریقے سے تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے تو قوم مشکلات کے بھنور سے نکل سکتی ہے۔ میرے نزدیک قوم کا کل بدلنے کا واحد طریقہ تعلیم کافروغ ہے جس کے لیے میں دن رات کوشاں ہوں۔
یہاں میں یہ بھی بتادوں کہ میرے نزدیک ڈگری کا حصول تعلیم نہیں ہوتی، ڈگری تو درحقیقت رسید ہے اس سرمایہ کاری کی جو کوئی بھی شخص اپنی تعلیم پرکرتا ہے ۔ اصل چیز شعور ہے جس کا ہونا بہت ضرور ی ہے ، تعلیم یافتہ کہلانے کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم انسان کے کردار سے جھلکے۔
سوال : اس وقت کتنے بچے آپ کے قائم کردہ اسکول سے تعلیم حاصل کررہے ہیں اور وہ کس قسم کے طبقات سے تعلق رکھتے ہیں؟
جواب: اب تک میں دو سلم اسکول قائم کرچکا ہوں جن میں لگ بھگ سو بچے مفت تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ یہ بچے بے گھر ہیں ، جھگیوں میں رہتے ہیں، سڑکوں سے کوڑا کرکٹ اٹھاتے ہیں ، ان میں سے کچھ بھیک مانگتےہیں ۔ یہ وہ بچے ہیں جن کےپورے خاندان میں کبھی کسی نے اسکول کی شکل نہیں دیکھی لیکن یہ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
سوال: آپ کے اسکول میں بچوں کو کونسی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں، ان کے انتظامات کس طرح ہوتے ہیں؟
جواب: ہمارے اسکولوں میں بچوں کو تعلیم کے زیور سے تو آراستہ کیا ہی جارہا ہے تاہم ان کی معاشی حیثیت کے سبب ہم ان کے لیے کپڑے ، جوتے ، گھر کا راشن ، اسکول میں موجودگی کے دوران کھانے کی اشیا، اسکول بیگ ، کتابیں اور اسٹیشنری کا انتظام کرتے ہیں تاکہ ان پر سے گھر کی معاشی ذمہ داریوں کو بوجھ کم ہو۔ اس سب کے لیے ہم کسی سے نقد رقم نہیں لیتے ، وہ لوگ جو ہماری مدد کرنا چاہتے ہیں ، ہم ان سے درخواست کرتے ہیں کہ پیسوں سے ہم نے بھی سامان ہی خریدنا ہے تو آپ اپنے ہاتھ سے ہمیں سامان خرید دیں۔ ہماری بنیادی ضروریات میں لیپ ٹاپ ، ٹیبلٹ، کھانا ، راشن اور سولر کا سامان شامل ہے جس کے لیے ہم لوگوں سے مدد کی اپیل کرتے ہیں۔
سوال: اسکول کے قیام میں ابتدائی مشکلات کیا پیش آئیں اور ان پر کیسے قابو پایا؟۔
جواب: کوئی بھی کام اپنے آغاز میں آسان نہیں ہوتا، سو یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔ ہمارے سامنے سب سے بڑا مرحلہ بچوں کو جمع کرنا تھا، اس کے بعد ان کے والدین کو راضی کرنا بھی ایک مشکل مرحلہ تھا کہ خدارا اپنے بچوں کو تعلیم دلوائیں تاکہ کل کو یہ معاشرے کا کارآمد حصہ بن سکیں ۔ اور نہ صرف ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں ، بلکہ اپنے خاندان کی معاشی حالت میں بہتری کے لیے موثر طریقے سے اپنا کردار ادا کرسکیں۔
جب یہ مرحلہ سر ہوگیا تو ان بچوں کو سمجھانا بھی ایک انتہائی مشکل امر تھا ۔ ہر بچے کی زبان یا لہجہ الگ ہے ، پسِ منظر میں دور دور تک کہیں تعلیم نہیں تھی ۔ ان بچوں کے پاس آغاز میں وہ بنیادی معلومات بھی نہیں تھیں جو کسی بھی بچے کے پاس ہونا بے حد ضروری ہیں۔
اس کے بعد یہ اپنے معاشرتی پسِ منظر کے سبب نشست و برخواست اور گفتگو کے قرینے سے بالکل نا واقف تھے ۔ ہم ان بچوں کو نہ صرف تعلیم کے زیور سے آراستہ کررہے ہیں بلکہ انہیں تمیز و تہذیب سکھا کر مہذب معاشرے کے قدم سے قدم ملا کر چلنا بھی سکھانے کی کوشش کررہے ہیں۔
سوال : مستقبل کے کیا ارادے ہیں، اس سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے کیا لائحہ عمل ہے؟
جواب: مستقبل کا ارادہ یہ ہے کہ بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھاتے ہوئے اس سلسلے کو آگے بڑھایا جائے، میں مرنے سے قبل کم از کم اس ملک کے دس لاکھ بچوں کو تعلیم یافتہ بنانا چاہتاہوں ، یہی سبب ہے کہ گزشتہ دو سال سے میں تعلیم کو بالکل نچلی سطح پر منتقل کرنے کے لیے نت نئے طریقے ڈھونڈتا ہوں جن میں سے ایک یہ سولر اسکول کا منصوبہ ہے جو اب کامیابی کے ساتھ علم کی روشنیاں بکھیر رہا ہے۔