ویڈیو رپورٹ: ممتاز اریسر
عمر کوٹ کے سے تعلق رکھنے والے میگھواڑ قبیلے کی خواتین دست کاری میں مہارت کے حوالے سے مقبول ہیں۔ ان کا ہنر نسل در نسل منتقل ہوتا ہے، لیکن ان ہنر مند خواتین کا کہنا ہے کہ اب پہلے جیسا معاوضہ نہیں ملتا، غیر سرکاری تنظیم کے لوگ آتے ہیں، ملاقاتیں کرتے ہیں لیکن ہمارے لیے کوئی کام نہیں کرتا۔
70 سالہ پریمی کا تعلق ایک ہندو میگھواڑ قبیلے سے ہے۔ یہ قبیلہ دستکاری کی مہارت کے حوالے سے مشہور ہے۔ پریمی کی عمر کپڑے پر سوئی اور دھاگے سے پھول سجاتے گزر گئی، مگر مگر ان کی زندگی سنور نہیں سکی۔ پریمی کو شکوہ ہے کہ جتنی محنت اور صفائی سے کپڑے پر سلائی کڑھائی کا کام کرتی ہیں، اس کا انھیں معاوضہ اتنا نہیں ملتا۔
پریمی میگھواڑ نے بتایا ’’ایک وقت تھا جب ہنرمند خواتین کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، اور منہ مانگا معاوضہ بھی مل جاتا تھا مگراب ایسا نہیں ہے۔ مارکیٹ میں مشین سے بنائے گئے گلے اور کرتے میعار میں کم ہونے کے باوجود سستے ہونے کی وجہ سے زیادہ فروخت ہو رہے ہیں۔‘‘
پریمی کی بیٹی کے مطابق پریمی کے شوہر پریموں گھر کے سربراہ ہیں، وہ سلائی کڑھائی کے کام سے خوش نہیں ہیں، ان کا خیال ہے کہ اس کام میں وقت زیادہ لگتا ہے اور معاوضہ کم ملتا ہے۔
’لٹل پیرس‘ کے 4 بلند پہاڑوں سے کون سی عجیب و غریب داستانیں منسوب ہیں؟ ویڈیو
گھر کے سربراہ پریموں میگھواڑ غیر سرکاری تنظیموں کے کردار سے خوش نہیں ہیں، وہ شکوہ کرتے ہیں کہ غیر سرکاری تنظیموں کے ذمہ دار فقط دکھاوے کے لیے ان کے کام کو پیش کرتے ہیں، مگر بریانی کے علاوہ کوئی سہولت نہیں دیتے۔
پریموں کا کہنا ہے کہ ہنر مند خواتین کی تیار اشیا کو دنیا بھر میں پسند کیا جاتا ہے، مگر ان کا یہ ہنر ان کی زندگی میں خاص تبدیلی نہیں لا سکا۔ اگر انھیں ایسا پیلٹ فارم مل جائے، جہاں وہ اپنی بنائی ہوئی چیزیں فروخت کر کے مناسب معاوضہ وصول کر سکیں، تو ان کے معاشی حالات بھی بہتر ہو جائیں۔