تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

کیا ایک صحّت مند شخص ذہنی طور پر بھی توانا ہوتا ہے؟

کیا جسمانی طور پر توانا اور صحّت مند نظر آنے والا کوئی شخص ذہنی طور بھی تن درست ہوسکتا ہے؟ سائنس دانوں‌ کے مطابق جسمانی اور ذہنی صحّت یا تن درستی دو الگ باتیں‌ ہیں۔ جس طرح‌ جسمانی صحّت اور توانائی کو بحال رکھنے کے لیے ہم غذائی اجناس اور ضرورت کے مطابق خوراک پر انحصار کرتے ہیں، اسی طرح ہمیں‌ اپنی ذہنی صحّت پر بھی توجہ دینا چاہیے۔

عالمی ادارۂ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق صحّت مند وہ شخص ہے جو نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی طور پر بھی تن درست ہو، لیکن عام طور پر ایسا نہیں‌ سمجھا جاتا اور یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں ذہنی صحّت سے متعلق مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔

ماہرین کے ان خدشات کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک میں‌ اکثریت کو غربت اور علاج معالجے کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے کئی مسائل کا سامنا ہے اور لوگ‌ ذہنی صحّت اور امراض کے بارے میں‌ آگاہی نہیں‌ رکھتے۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ذہنی مسائل اور بیماریوں کے علاج کی ضرورت ہی محسوس نہیں‌ کی جاتی اور لوگ سائیکا ٹرسٹ کے پاس جانے میں‌ ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں رپورٹ ہونے والے خودکشی کے کیسوں میں سے 90 فی صد کا تعلق ڈپریشن یا دیگر ذہنی امراض سے ہے۔ ذہنی امراض کے شکار افراد پر توجہ دینے اور ان کی مدد کرنے کا رحجان کم ہے جب کہ علاج کی سہولیات بھی ناکافی ہیں۔

طبی ماہرین کے مطابق ڈپریشن آپ کی نیند اور معمولاتِ زندگی پر اثر انداز ہونے کے بعد مسلسل عدم توجہی کے سبب خودکشی تک لے جاتا ہے۔

پاکستان مینٹل ہیلتھ ایسوسی ایشن کے مطابق ملک میں ڈیڑھ کروڑ سے زائد افراد کسی نہ کسی ذہنی مرض کا شکار ہیں جن میں اکثریت خواتین کی ہے۔ غیر سرکاری ادارے کے مطابق پاکستان میں‌ نوجوان کی بڑی تعداد ڈپریشن کی مریض ہے۔

عالمی ادارے کی رپورٹ میں‌ کہا گیا ہے کہ تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی دنیا میں تعلیم و روزگار کے حصول کی دوڑ اور مسابقت کی فضا خاص طور پر نوجوانوں کو ذہنی دباؤ اور مختلف بیماریوں میں‌ مبتلا کررہی ہے۔

عصرِ حاضر میں ٹیکنالوجی اور اسمارٹ فونز‌ کا غیر ضروری یا اضافی استعمال بھی ایک بڑا مسئلہ ہے اور طبی سائنس کے مطابق انٹرنیٹ اور سیلفی کا جنون نوجوانوں‌ کو ذہنی مسائل سے دوچار کررہا ہے۔

سوشل میڈیا پر متحرک رہتے ہوئے نوجوان توازن اور اعتدال برقرار نہیں‌ رکھتے جس کے نتیجے میں کسی نہ کسی طرح ان کی ذہنی صحّت متاثر ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ والدین اور اساتذہ کو ان عوامل پر توجہ دینا ہو گی جن کی مدد سے نوجوانوں کے رویّوں اور ان کے طرزِ زندگی میں مثبت اور توانا تبدیلی آئے۔

عالمی ادارۂ صحّت کے ماہرین کے مطابق نوجوانوں‌ کو اس حوالے سے آگاہی دینے اور ان کی راہ نمائی کرنے کی ضرورت ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے کی ویب سائٹ پر گزشتہ سال جاری کی گئی رپورٹ میں علاج کے بجائے احتیاط کو اہمیت دینے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا، لیکن ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ذہنی دباؤ اور کسی بیماری کی صورت میں ماہرِ ‌نفسیات سے ضرور رابطہ کریں۔

عالمی ادارۂ صحّت کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں اس مسئلے کی نشان دہی کرتے ہوئے چند ہدایات اور عملی کوششوں کی‌ ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

ماہرین کے مطابق کسی بھی ممکنہ چیلنج کے حوالے سے پیشگی اقدامات کرنے چاہییں۔

والدین، تعلیمی ادارے، معاشرہ اور حکومت اہم ستون ہیں جن کا باہمی تعاون کئی مسائل سے نمٹنے میں‌ مدد دے سکتا ہے۔

کمیونٹی سروسز کو تعلیمی اداروں میں لازمی قرار دیا جائے۔ طلبا کو سماجی خدمت کے پراجیکٹس دیے جائیں جو ان کے مضمون سے متعلق ہوں اور ان کی تعلیمی سند کا حصول ان پراجیکٹس کی تکمیل سے مشروط کیا جائے۔ ماہرین کا اصرار ہے کہ جو طلبا کمیونٹی سروسنگ نہ کریں، انھیں ڈگری جاری نہ کی جائے۔ ایسا کرنے سے ان میں احساسِ ذمہ داری اور جذبہ خدمت پیدا ہو گا جو معاشرے میں سدھار لاسکتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ذہنی صحت کے حوالے سے حکومتی سطح پر جامع پالیسی ترتیب دینی چاہیے اور اس میں ماہرین کی رائے کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔

Comments

- Advertisement -