تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

سحری میں لوگوں کو جگانے والے معاشرے سے معدوم ہونے لگے

الارم گھڑیوں اور اسمارٹ فونز کے اس دور میں ایک ہزار سال کی طویل روایت پر نگہبان کچھ مقامی ہیرو ہوتے ہیں۔

رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی عالمِ اسلام میں ایک مقدس لہر دوڑ جاتی ہے، سحرو افطار کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے، برکتوں اور رحمتوں کا یہ پاکیزہ مہینہ اپنے ساتھ خوشی اور مسرت کی بہار لے کر آتا ہے۔ اس ماہِ مقدسہ کو مختلف اسلامی ممالک میں کس انداز سے خوش آمدید کہا اور اس کی برکتوں سے کس طرح فیض یاب ہوا جاتا ہے۔

دنیا میں رمضان المبارک کے مہینے میں مساہراتی کرنے والوں کے حوالے سے بعض ثقافتی روایات اب بھی جاری ہیں، ان قدیمی روایات میں ایک ڈھول بجاکر لوگوں کو سحری کے وقت جگانے کی روایت بھی ہے، یہ روایت تقریباً چار سو سال پرانی ہے اور یہ سلطنت عثمانیہ کے خلیفہ النصیر کے دور میں مصر سے شروع ہوئی۔

مصر کا حکمران عتبہ ابن اسحاق رمضان کے دوران قاہرہ کی سڑکوں کا دورہ کرنے والے پہلا شخص تھا جو لوگوں کو شاعرانہ انداز میں بولتے ہوئے جگاتا تھا ، وہ کہتا تھا ’’تم لوگوں میں جو سو رہے ہیں وہ اُٹھیں اور اللہ کی عبادت کریں‘‘۔

سحری کے لیے جگانے والوں کو رمضان کے ڈھولیے کہا جاتا ہے، رمضان المقدس کے مہینے میں سحری سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ قبل ڈھولیے گلی گلی ڈھول بجاتے ہوئے گھو متے ہیں،یوں سحری کے لیے جگانے کی روایت اب بھی قائم ہے۔

کچھ عرصے قبل پہلے مساہراتی خاص طور پر بچوں میں بہت مشہور ہوتا تھا، سحری میں ڈھول بجا کر روزے داروں کو اٹھانے کا رواج پاکستان ہی نہیں ترکی میں بھی موجود ہے، رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی ترکی کے ڈھولیے عثمانی لباس زیب تن کیے ہوئے استنبول میں بھائی چارگی کا ثبوت دے رہے ہیں، ترکی میں مسلمانوں کو سحری کے وقت جگانے کے لیے دو ہزار سے زائد ڈھولیے اپنے کردار ادا کر تے ہیں۔

pak-05

مصر میں رمضان المبارک کے دوران فانوس (لالٹین) اٹھا کر گلیوں کے چکر لگاتے ہیں، یہ روایت ایک ہزار برس سے زائد پرانی ہے، کہا جاتا ہے کہ 969ء میں اہلِ مصرنے قاہرہ میں خلیفہ معز الدین اللہ کا فانوس جلا کر استقبال کیا تھا جس کے بعد سے رمضان المبارک کے دوران فانوس جلانے کی روایت کا آغاز ہوا۔ ایک اور روایت کے مطابق فاطمی خلیفہ الحاکم بامر اللہ کی یہ خواہش تھی کہ قاہرہ میں رمضان المبارک کے دوران افطاری کے بعدچراغاں کیا جائے، چناں چہ انہوں نے یہ حکم جاری کیا کہ تمام مساجد پر لالٹین روشن کی جائے۔

pak-03

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فاطمی خلیفہ جب رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کے لیے گئے تو بچوں نے لالٹین اٹھا رکھی تھی اور وہ حمد و نعت پڑھ رہے تھے۔ ایک اور روایت یہ بھی ہے کہ خلیفہ الحاکم نے یہ شرط عائد کی کہ خواتین گھروں سے رات کے وقت اسی صورت میں نکل سکتی ہیں جب ان کے ساتھ بچہ ہو اور اس نے لالٹین تھام رکھی ہو، یہ حکم بھی جاری کیا گیا کہ تمام گھروں کے باہر لالٹین جلائی جائے۔

اسلامی روایات کے مطابق مسلمانوں کے اولین مساہراتی (منادی کرنے والے) حضرت بلالؓ حبشی تھے جو اسلام کے پہلے مؤذن بھی تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلالؓ کی ذمہ داری لگائی کہ وہ اہل ایمان کو سحری کے لیے بیدار کریں، ان افراد کو اگرچہ کوئی باقاعدہ تنخواہ نہیں ملتی لیکن ماہ رمضان کے اختتام پر لوگ انہیں مختلف تحائف دیتے ہیں۔

امریکہ کے شہر نیویارک میں سن 2002 سے محمد بوٹا نامی ایک ٹیکسی ڈرائیور ڈھول بجا کر مسلمانوں کو سحری کے لیے جگا رہا ہے۔

pak-01

Comments

- Advertisement -