اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر خزانہ و جنرل سیکریٹری عوام پاکستان پارٹی مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ حکومت کو پی آئی اے کی اب جو بھی بولی ملتی ہے لے ورنہ زیادہ نقصان ہوگا۔
اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’سوال یہ ہے‘ میں مفتاح اسماعیل نے کہا کہ پی آئی اے نجکاری عمل میں پرائیویٹائزیشن کمیٹی اور وزارت کی بھی غلطی ہے، پی آئی اے کا 800 ارب روپے کا قرض اور 700 ارب روپے کا خسارہ ہے، حکومت نے 600 ارب روپے خسارہ اپنے ذمے لیا اب پی آئی اے کا خسارہ 200 ارب ہے۔
مفتاح اسماعیل نے کہا کہ 3 کمپنیاں ایئر عریبیہ، پاک ایتھنول اور یونس برادرز والے پی آئی کو لینے کیلیے سنجیدہ تھے، تینوں کمپنیاں کہتی تھیں کہ 100 فیصد شیئر فروخت کر دیں لیکن حکومت تیار نہیں تھی، حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کیلیے عجیب قسم کی شرائط رکھی تھیں۔
سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ سال 80 ارب کا نقصان تھا اور آئندہ سال 100 ارب کا نقصان ہوگا، رواں سال اس کے خسارے کا تخمینہ 90 ارب روپے ہے، حکومت کو شکست ماننی چاہیے کہ ہم سے غلطی ہوگئی، حکومت کو اسی کنسورشیم کو پی آئی اے دے دینی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے سیاستدانوں کو ہٹا دیا جائے جو نجکاری نہیں چاہتے، حکومت 3، 4 اچھے لوگ سامنے لائے جو نجکاری کر سکیں، ایسا لگتا ہے حکومت کی نجکاری کی نیت ہی نہیں تھی، جو شخص بھی آج پی آئی اے خریدے گا وہ فوری تو ادارے کو کھڑا نہیں کردے گا بلکہ ابتدائی طور پر اس کو نقصان ہوگا۔
’کوئی آنکھیں بند کر کے سرمایہ کاری نہیں کرتا ماحول بھی دیکھتا ہے۔ حکومت کو نیوٹرل بزنس فرینڈلی لوگ لانے چاہئیں جو ایسے عمل کو دیکھیں۔ حکومت کو اب جو بھی بولی ملتی ہے لے ورنہ زیادہ نقصان ہوگا۔‘
خیبر پختونخوا حکومت کی قومی ایئر لائن خریدنے کی خواہش پر مفتاح اسماعیل نے کہا کہ صوبے میں 40 فیصد بچے اسکولوں سے باہر ہیں، وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور پہلے صوبے کے بچوں کو پڑھائیں اور لوگوں کو روزگار دیں، وہ پی آئی اے لے کر سیاست نہ چمکائیں بلکہ صوبے پر توجہ دیں۔