واشنگٹن: امریکا کے قومی سلامتی کے برطرف مشیر مائیک والٹز کے بارے میں واشنگٹن پوسٹ نے انکشاف کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات سے قبل انھوں نے اسرائیل سے بات چیت کر لی تھی، جس نے ٹرمپ کو ناراض کر دیا تھا۔
امریکی اخبار نے لکھا ہے کہ اوول ہاؤس میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ایران کے خلاف فوجی آپشنز کے بارے میں اہم ملاقات ہونے والی تھی، تاہم مائیک والٹز نے اس ملاقات سے بھی قبل نیتن یاہو کے ساتھ بات چیت کر لی۔
اخبار نے لکھا کہ مائیکل والٹز سے ٹرمپ مایوس ہوتے جا رہے تھے، انھوں نے اس سے قبل ایک حساس سگنل گروپ چیٹ میں ایک صحافی کو شامل کر لیا تھا جس کی وجہ سے حساس چیٹ لیک ہو گئی، جب کہ وہ شروع ہی سے ٹرمپ انتظامیہ کے دیگر اعلیٰ عہدے داروں کے ساتھ جھڑپوں میں ملوث تھے، جن میں ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی بحث بھی شامل تھی۔ اخبار کے مطابق مائیک والٹز اوول آفس میں اپنے باس کے مقابلے میں فوجی طاقت کے استعمال کے لیے زیادہ بے چین نظر آتا تھا۔
سگنل ایپ پر ٹرمپ کے جنگی منصوبے کی چیٹ کیسے لیک ہوئی؟ ذمہ دار خود ہی سامنے آ گیا
اخبار نے یہ بھی کہا کہ قومی سلامتی کے مشیر کی برطرفی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ والٹز کا خارجہ پالیسی سے متعلق مؤقف بہت سخت تھا، والٹز نے ٹرمپ کے مؤقف کے برعکس روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے خلاف سخت رویہ اپنانے کو ترجیح دی۔
اخبار نے انکشاف کیا کہ ٹرمپ اس وقت غصے میں آ گئے جب والٹز اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے وائٹ ہاؤس کے دورے کے دوران اس بات پر متفق نظر آئے کہ یہ ایران پر حملہ کرنے کا وقت ہے۔ تاہم دوسری طرف نیتن یاہو کے دفتر نے تردید کی ہے کہ وزیر اعظم نے ٹرمپ سے ملاقات سے قبل ایران کے خلاف فوجی کارروائی پر متفقہ مؤقف اپنانے کے لیے والٹز کے ساتھ رابطہ کیا تھا۔