یہ تذکرہ ہے بینَ الاقوامی شہرت یافتہ ناول نگار، شاعر اور مضمون نگار میلان کنڈیرا کا جنھوں نے موسیقی میں دل چسپی سے شاعری اور شاعری سے کہانی بُننے تک اپنے سفر کو لازوال بنایا۔
میلان کنڈیرا ایسے ناول نگار تھے جن کے نزدیک، اُن کی تخلیقات کے تراجم ایک دہشت ناک خواب تھے جنھیں پڑھ کر وہ پریشان ہوجاتے تھے۔ اس کی تفصیل دل چسپ بھی ہے اور شاید ایک بڑے ادیب کی اپنی کہانیوں کے مترجمین سے ناراضی کا اظہار بھی۔
میلان کنڈیرا یکم اپریل 1929 میں چیکوسلوواکیہ کے ایک شہر برنو میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک متوسط طبقے کے فرد تھے جس میں ان کے والد لڈوک کنڈیرا کو ایک موسیقار کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا جو پیانو بہت اچھا بجاتے تھے۔ میلان کنڈیرا نے بھی اپنے والد سے پیانو بجانا سیکھا۔ انھیں موسیقی سے حد درجہ لگاؤ رہا۔ ان کے ناولوں میں جگہ جگہ موسیقی پر مباحث ملتے ہیں۔ خاص طورپر ان کے مشہور ناول ‘دی جوک’ میں جس کا ایک طویل باب موسیقی کے انتہائی دقیق اورپیچیدہ مسائل پر مبنی ہے۔
میلان کنڈیرا کو موسیقی کے ساتھ بچپن سے ہی ادب سے شغف رہا۔ وہ ہائی اسکول کے طالب علم تھے جب پہلی نظم لکھی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کنڈیرا نے جاز موسیقار کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ کنڈیرا کا تعلق نوجوانوں کی اُس نسل سے ہے جسے جنگ عظیم سے پہلے کے چیکوسلوواکیہ کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ ان کے لیے چیکوسلوواکیہ کا ‘ری پبلک’ ہونا ایک خواب کے مانند رہا۔ دوسری جنگ عظیم اور چیکوسلوواکیہ پر جرمنی کے قبضے کے بعد نوجوانوں کی یہ نسل ایک خاص آئیڈیالوجی کی حامی ہوگئی تھی۔ میلان کنڈیرا نے بھی کمیونسٹ پارٹی کی رکنیت حاصل کر لی تھی۔
بعد میں وہ پراگ کی چارلس یونیورسٹی میں موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ فلم، ادب اور جمالیات کے طالبِ علم رہے۔ سنہ 1952 میں کنڈیرا کا تقرر پراگ اکادمی آف پرفارمنگ آرٹ میں عالمی ادب کے پروفیسر کے طور پر ہوا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب انھوں نے اپنی نظمیں اور مضامین شائع کرانا شروع کیے اور کئی اہم ادبی جریدوں کی ادارت بھی سنبھالی۔
پچاس کی تقریباً پوری دہائی میں کنڈیرا نے بہت سے تراجم کیے، مضامین لکھے اور اسٹیج کے لیے ڈرامے بھی تحریر کیے۔ 1953 میں کنڈیرا کی نظموں کی پہلی کتاب ‘مین اے وائیڈ گارڈن’ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ اس کے بعد 1961 میں دی لاسٹ مئی اور 1965 میں ‘مونولاگز’ کے عنوان سے نظموں کے دو مجموعے اور شائع ہوئے۔ ان نظموں میں مارکسٹ آئیڈیالوجی کا اثر نمایاں ہے، مگر اس کے باجود کنڈ یرا اس کٹر قسم کی مارکسی فکر کے خلاف نظر آتا ہے جو اس زمانے میں ادب اور شاعری کا ناگزیر عنصر بن گئی تھی۔
1967 میں میلان کنڈیرا کا شاہکار ناول دی جوک شائع ہوا۔ اس ناول سے دنیا میں میلان کنڈیرا کا شہرہ ہوا، اور ان کی کہانیوں کے مجموعے لاف ایبل لوز کو بھی جو تقریباً اسی زمانے میں شائع ہوا تھا، بے حد سراہا گیا۔ ان کا دوسرا ناول 1972 میں فیئرویل والٹز شائع ہوا جسے زیادہ شہرت نہ مل سکی۔ تیسرا ناول جس کا عنوان ’لائف از السویئر‘ تھا، پیرس سے 1973 میں شائع ہوا۔ 1975 میں اس نے پراگ کو خیرباد کہا اور فرانس آگیا۔ 1979 میں اسے چیکوسلوواکیہ کی شہریت سے بھی ہاتھ دھونا پڑا کیوں کہ اس چوتھے ناول دی بک آف لافٹر اینڈ فارگیٹنگ میں جو کچھ لکھا گیا تھا، اسے چیکو سلوواکیہ کی حکومت برداشت ہی نہیں کر سکتی تھی۔ یہ ناول 1978 میں شائع ہوا تھا اور اسے میلان کنڈیرا کی شہرہ آفاق تحریر کا درجہ حاصل ہے۔
سن 1981 میں میلان کنڈیرا نے فرانسیسی شہریت اختیار کر لی تھی۔ 11 جولائی 2023 کو میلان نے دنیا کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہا۔
یہاں ہم بین الاقوامی ادب میں نام و مرتبہ پانے والے میلان کنڈیرا کی ترجمے اور مترجمین کے بارے میں وہ رائے نقل کر رہے ہیں جو دل چسپ بھی ہے اور بتاتی ہے کہ کس طرح کم علم مترجمین اپنے ناقص تراجم سے ادب کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ میلان کنڈیرا نے اس پر اپنے خیالات کا اظہار جارڈن ایلگرابلی سے گفتگو کے دوران کیا تھا جس کا ترجمہ بلند پایہ اہلِ قلم اور بہترین مترجم محمد عمر میمن نے کیا۔ میلان کنڈیرا کہتے ہیں۔
”آہ، یہ میرے تجربے کا سب سے زیادہ اندوہ ناک باب ہے۔ ترجمہ وہ دہشت ناک خواب ہے جس سے میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ میں، بظاہر، اُن نادر ادیبوں میں سے ہوں جو اپنے تراجم کو اور میری حد تک یہ فرانسیسی، انگریزی، جرمن، حتیٰ کہ اطالوی میں ہوتے ہیں…. پڑھتا ہے، اور بار بار پڑھتا ہے، اُنہیں چھان پھٹک کر دیکھتا ہے اور اُن کی تصحیح کرتا ہے۔ چنانچہ، اپنے بیشتر ہم منصبوں کے مقابلے میں میں زیادہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ ترجمہ کیا ہوتا ہے۔ مجھے اس کی وجہ سے باقاعدہ دہشت زدہ زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ میں نے تقریباً چھ ماہ لگا کر ”مذاق“ کا فرانسیسی میں دوبارہ ترجمہ کیا۔ مترجم نے …. یہ سولہ برس پہلے کی بات ہے جب میں ابھی پراگ ہی میں سکونت پذیر تھا۔ میری کتاب کا ترجمہ کہاں کیا تھا، اُس نے تو اسے دوبارہ خود سے لکھ مارا تھا! اُسے میرا اسلوب بے حد روکھا پھیکا نظر آیا! اُس نے میرے مسودے میں سیکڑوں (جی ہاں، سیکڑوں!) آرائشی استعارے گھسیڑ دیے تھے؛ جہاں میں نے ایک ہی لفظ بار بار استعمال کیا تھا، وہاں اُس نے مترادفات بھڑا دیے تھے؛ صاحب، وہ تو ایک ”خوبصورت اسلوب“ تخلیق کر رہا تھا! جب، دس سال بعد، یہ قتلِ عام مجھ پر منکشف ہوا، تو میں تقریباً ہر جملے کو درست، اور اس کا ازسرِ نو ترجمہ، کرنے پر مجبور ہو گیا! پہلا انگریزی ترجمہ تو اور بھی واہیات تھا۔ ایڈیٹر صاحب نے اِس کے بیشتر تفکراتی حصّوں کو سرے سے حذف کر دیا تھا؛ مثلاً، وہ تمام حصے جن کا تعلق موسیقی سے ہے۔ ابواب کی ترتیب بدل کر تو اُس نے حد ہی کر دی، یوں ناول پر، ایک اور ہی ترتیب منڈھ دی گئی۔ آج (بہرحال) ”مذاق“ قابلِ اعتماد ترجمہ ہو کر دوبارہ چھپ گیا ہے۔
مجھے تو ہمیشہ یہی گمان رہا ہے کہ میرے متن اتنے سادہ ہوتے ہیں کہ ان کا بڑی آسانی کے ساتھ ترجمہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ غایت درجے کے شفاف ہوتے ہیں۔ ان کی زبان قدرے کلاسیکی، واضح اور غیر عامیانہ ہوتی ہے۔ لیکن چونکہ یہ سادہ ہوتے ہیں، ٹھیک اسی لیے ترجمے کے وقت مطلق معنوی صحت (absolute semantic exactitude) کا تقاضا کرتے ہیں! اب مترجمین دن بدن تحریر کو دوبارہ لکھنے والے بن گئے ہیں۔ ”وجود کی ناقابلِ برداشت لطافت“ کے امریکی ترجمے کے مسودے پر مجھے تین مہینے صرف کرنے پڑے، اور خدا گواہ ہے کہ یہ بڑے صبر آزما مہینے تھے! اسلوب کے بارے میں میرا اصول یہ ہے: جملے کو غایت درجے کا سلیس اور مولک ہونا چاہیے؛ اِس کے برخلاف، بیچارے میرے مترجمین جس اصول کا پاس رکھتے ہیں، وہ یہ ہے: جملے کو متمول نظر آنا چاہیے (تا کہ مترجم اپنی لسانی قابلیت، اپنی فائق ہنر مندی (virtuosity) کا مظاہرہ کر سکے اور حتیٰ المقدور پیش پا افتادہ بھی (کیونکہ طبّاعی مترجم کے یہاں بھدّے پن کی شکل میں ظاہر ہو سکتی ہے؛ لوگ اُس پر یہ پھبتی کس سکتے ہیں: ”انگریزی میں ایسے نہیں کہتے!“، لیکن جو میں لکھتا ہوں اُسے بھی چیک میں ایسے نہیں کہتے!)۔ آپ کی نگارش کو ایسا بنا کر پیش کیا جاتا ہے کہ وہ سپاٹ نظر آنے لگتی ہے۔ اُسے پیش پا افتادہ، حتیٰ کہ بازاری، بنا دیا جاتا ہے۔ یہی حشر آپ کی فکر کا بھی کیا جاتا ہے۔ بایں ہمہ، کسی ترجمے کے اچھے ہونے کے لیے بہت لاؤ لشکر کی ضرورت نہیں ہوتی: بس اسے مطابق اصل ہونا، مطابقِ اصل ہونے کا خواہش مند ہونا چاہیے۔ عجیب بات ہے کہ میری نگارشات کے بہترین مترجم وہ ہیں جن کا تعلق چھوٹے چھوٹے ملکوں سے ہے: ہالینڈ، ڈنمارک، پرتگال، یہ مجھ سے باقاعدہ رجوع کرتے ہیں، اپنے سوالوں کی بھرمار سے مجھے مغلوب کر دیتے ہیں، ہر تفصیل کے بارے میں پریشان ہوتے پھرتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ان چھوٹے چھوٹے ملکوں کے لوگ قدرے کم کلبیت پسند واقع ہوئے ہیں اور اب بھی، ادب کے دلدادہ ہیں۔”