جمعہ, مارچ 21, 2025
اشتہار

ملٹری کورٹ سے سزاؤں کیخلاف 29 درخواستیں خارج

اشتہار

حیرت انگیز

پشاور: پشاور ہائیکورٹ نے ملٹری کورٹ سے سزاؤں کے خلاف 29 درخواستیں خارج کرتے ہوئے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر مختصر فیصلہ سنا دیا۔

درخواست گزاروں کے وکلا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل ثنا اللہ اور عدالتی معاون پیش ہوئے۔ ایڈیشل اٹارنی جنرل ثنا اللہ نے عدالت کو بتایا کہ ملٹری کورٹ سزائیں خصوصی قانون کے تحت دی گئیں، سزاؤں میں 382 بی کا فائدہ ملزمان کو نہیں دیا جاتا، گرفتار ملزمان دہشتگرد ہیں، کسی رعایت کے مستحق نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اسپیشل قوانین کے تحت سزاؤں میں ملزمان کو 382 بی کا فائدہ نہیں مل سکتا، سزائیں اسی وقت شمار ہوں گی جس وقت ان ملزمان کی سزاؤں پر دستخط ہو، فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی جانب سے سزائیں خصوصی قانون کے دائرہ میں آتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: لارجر بینچ کی عدم دستیابی پر ملٹری کورٹ ٹرائل کیس ڈی لسٹ

ثنا اللہ نے مزید کہا کہ ملٹری کورٹ قوانین میں ہائیکورٹ صرف دیکھتی ہے سزا متعلقہ سیکشن کے تحت ہیں یا نہیں۔

یاد رہے کہ درخواستوں پر سماعت جسٹس نعیم انور اور جسٹس ڈاکٹر خورشید اقبال پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے کی۔

11 مارچ 2025 کو سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس نعیم اختر افغان نے ریماکس دیے تھے کہ موجودہ اپیل میں بار بار ایف بی علی کیس کا ذکر کیا جارہا ہے، کیس کو موجودہ کیس سے نہیں ملایا جا سکتا ہے، یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ایف بی علی کیس میں سوال بنیادی حقوق کا نہیں تھا۔ اس پر جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ سوال بس اتنا ہے سویلین کو بنیادی حقوق ہیں تو کیا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہو سکتا ہے؟ اس مقصد کیلیے ہمیں آئین کے آرٹیکل 8 کو پورا پڑھنا ہوگا۔

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ پہلے ملٹری کورٹس میں ٹرائل صرف آرمڈ فورسز ممبران کا ہوتا تھا، پھر آرمی ایکٹ میں سیکشن ڈی کو شامل کیا گیا، آرمڈ فورسز اور سویلینز کے گٹھ جوڑ کی بنیاد پر فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوئے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ فوجداری قانون میں تو گالی دینا بھی جرم ہے اس کی سزا متعین ہے، تو کیا آرمڈ فورسز ممبران کو کسی سویلین کے گالی دینے پر ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوگا؟

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں