جمعرات, فروری 20, 2025
اشتہار

ملٹری کورٹس میں ٹرائل سانحہ اے پی ایس جیسے مجرموں کیلئے تھا، کیا سویلین کے ساتھ وہی برتاؤ کیا جاسکتا ہے؟ جسٹس مسرت ہلالی کا سوال

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد : فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کے کیس میں جسٹس مسرت ہلالی نے سوال اٹھایا کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل سانحہ اے پی ایس جیسے مجرموں کیلئے تھا، کیا سویلین کے ساتھ وہی برتاؤ کیا جاسکتا ہے؟

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت ہوئی۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی ، وزارت دفاع کےوکیل خواجہ حارث کی جانب سے دلائل کا آغاز کیا گیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا آپ جسٹس منیب کی ججمنٹ سے پیراگراف پڑھ رہے تھے وہیں سے شروع کریں، آرٹیکل 233 بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے آئین کے مطابق بھی رولز معطل ہوتے ہیں ختم نہیں، آرٹیکل 5 کے مطابق بھی رائٹس معطل نہیں ہوسکتے تو خواجہ حارث نے بتایا کہ آرٹیکل 233 کا ایک حصہ آرمڈفورسز اور دوسرا حصہ سویلینز کا ہے، عدالتی فیصلے کی بنیاد پر آرٹیکل 8 (5) اور 8 (3) مختلف ہیں یکجا نہیں کیا جاسکتا، جس پر جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ آپ کا نکتہ کل سمجھ آچکا، آگے بڑھیں اور بقیہ دلائل مکمل کریں۔

خواجہ حارث نے سویلین کا ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دینے والافیصلہ پڑھا اور کہا ایف بی علی کیس میں طے پا چکا تھا سویلین کا بھی فوجی عدالت میں ٹرائل ہوسکتا، اکثریتی فیصلے میں آرٹیکل آٹھ تین اور آٹھ پانچ کی غلط تشریح کی گئی۔

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ دیکھتے ہیں اس پر ہم آپ سے اتفاق کریں یانہ کریں تو وکیل نے کہا کہ غلط تشریح کی بنیاد پرکہہ دیا گیا ایف بی علی کیس الگ نوعیت کا تھا، ایف بی علی پر ریٹائرمنٹ کے بعد ٹرائل چلایا گیا تھا جب وہ سویلین تھے، فیصلے میں کہا گیا جرم سرزد ہوتے وقت ریٹائر نہیں تھے، اس لئے ان کا کیس الگ ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے 9 مئی والے ملزمان تو آرمڈ فورسز سے تعلق نہیں رکھتے، آج کل ایک اصطلاح ایکس سروس مین کی ہے، یہ ایکس سروس مین بھی نہیں تھے، چلیں ہم صرف شہری کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔

جسٹس جمال نے استفسار کیا سوال یہ ہے سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کس حدتک ہو سکتا ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے بھی ریمارکس میں کہا کہ سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل اے پی ایس جیسے مجرمان کیخلاف ٹرائل کیلئے تھا، کیا تمام سویلین سے وہی برتاؤ کیا جاسکتا ہے جیسے سانحہ اے پی ایس میں کیا گیا، پاکستان کا آئین معطل نہیں ہے۔

وکیل وزارت دفاع نے بتایا کہ بنیادی حقوق رہتے ہیں اس بارےمیں عدالتی فیصلے موجود ہیں، جس پر جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ہمیں بتائیں ملٹری کورٹس سےمتعلق بین الاقوامی پریکٹس کیاہے، وکیل وزارت دفاع نے بتایا کہ بین الاقوامی سطح پر میں مثالیں پیش کروں گا۔

جسٹس جمال مندوخیل کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ روزانہ کی بنیاد پر فوجی جوان شہید ہو رہےہیں، ہمیں شہدا کا احساس ہے، سوال یہ ہے ان شہدا کے مقدمات فوجی عدالتوں میں کیوں نہیں چلتے، کوئی محض سوچ رکھتا ہو کیا اس کے خلاف بھی ملٹری کورٹس میں کیس چلےگا، سوال یہ ہے کونسے کیسز ہیں آرٹیکل 8 کی شق 3 کے تحت ملٹری کورٹس میں چلیں گے۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے خواجہ حارث سے مکالمے میں کہا کہ خواجہ صاحب لگتا ہےآپ کی تیاری مکمل نہیں ہے، 5 رکنی بینچ نے آرمی ایکٹ کی کچھ دفعات کالعدم کی ہیں، ہم بھی ان دفعات کو کالعدم رکھیں پھر تو سویلین کا فوجی ٹرائل ہو ہی نہیں سکتا، اگرہم کسی اور نتیجے پر پہنچیں تو طے کرنا ہوگا کون سے سویلین کا فوجی ٹرائل ہوسکتا ہے۔

جسٹس نعیم کا مزید کہنا تھا کہ اب آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں2023 میں ترمیم بھی ہو چکی، ہمیں اس ترمیم کی روشنی میں بتائیں، کل جسٹس جمال نے فوجی چوکی کی مثال دے کر سوال اسی لئے پوچھا تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے بھی ریمارکس دیے پارلیمنٹ کا اختیار بلاشبہ ہے قانون بنائے کہ کیا کیا چیزجرم ہے، پارلیمنٹ چاہے تو کل قانون بنا دے ترچھی آنکھ سے دیکھنا جرم ہے، اس جرم کا ٹرائل کہاں ہوگا وہ عدالت قائم کرنا بھی پارلیمنٹ کی آئینی ذمہ داری ہے، آئین پاکستان پارلیمنٹ کو یہ اختیار اور ذمہ داری دیتا ہے۔

بعد ازاں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

اہم ترین

راجہ محسن اعجاز
راجہ محسن اعجاز
راجہ محسن اعجاز اسلام آباد سے خارجہ اور سفارتی امور کی کوریج کرنے والے اے آر وائی نیوز کے خصوصی نمائندے ہیں

مزید خبریں