ٹوکیو: لاکھوں میل دور کہکشاں پر آکسیجن کی موجودگی کے اشارے ملے ہیں، یہ کہکشاں بگ ہینگ (عظیم دھماکے) کے فقط ڈھائی سو ملین سال بعد ظاہر ہونا شروع ہوئی تھی، اس سے کائنات کی ابتدا سے متعلق اہم معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔
ماہرین فلکیات کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ کائناتی اعتبار سے ڈھائی سو ملین برس کا عرصہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا ہے، اس لیے اس کہکشاں پر آکسیجن کی موجودگی کے اشارے یہ جاننے میں مدد دے سکتے ہیں کہ کائنات کی ابتدا کے باعث بننے والے عظیم دھماکے کے بعد اس کائنات کی ماہیت کیا تھی۔
اس کہکشاں کو ایم اے سی ایس 1149 جے ڈی وی کا نام دیا گیا ہے اور یہ 13.8 ارب سال پہلے ہونے والے بگ ہینگ کے ساڑھے پانچ سو ملین سال بعد مکمل طور پر موجود تھی۔
محققین کے مطابق اس کہکشاں سے چلنے والی روشنی کو زمین تک پہنچنے میں 13.28 ارب نوری سال لگے جبکہ سائنسدان اس روشنی کے ذریعے اس کہکشاں کو دیکھنے کو ’ماضی انتہائی بعید‘ میں جھانکنے سے تعبیر بھی کرتے ہیں۔
سائنس دانوں کے مطابق اس کہکشاں پر آکسیجن کی موجودگی کے اشارے ملنے سے اس نظریے کو تقوت ملتی ہے کہ کائنات کی ابتدا کے بعد یہاں آکسیجن، کاربن اور نائٹروجن ہی سب سے پہلے بننے والے عناصر تھے اور ابتدائی ستاروں پر یہی عناصر موجود ہوتے تھے تاہم بعد میں ان ابتدائی اور بڑے ستاروں کے پھٹنے کے بعد نئے اور بھاری عناصر تخلیق ہوئے۔
یونیورسٹی آف جاپان سے وابستہ خلانورد تاکویا ہاتیسھوتو کے مطابق اس مطالعے سے قبل ہمارے پاس ابتدائی طرز کے ستاروں کی تخلیق سے متعلق فقط نظریاتی پیش گوئیاں ہی تھیں مگر اب ہم اس کائنات میں ابتدائی دور کے ستاروں کی تخلیق کا براہ راست مشاہدہ کررہے ہیں۔
اس مطالعے کو بگ ہینگ کے بعد ستاروں اور کہکشاؤں کی تخلیق اور آغاز سے متعلق شواہد کی راہ میں بڑی پیش رفت قرار دیا جارہا ہے، سائنس دان عظیم دھماکے کے بعد اس ابتدائی دور کو کاسمک ڈان یا کائناتی صبح قرار دیتے ہیں۔