ہفتہ, اکتوبر 12, 2024
اشتہار

حکومت کی آمدنی بڑھانے کے چند مفید نسخے

اشتہار

حیرت انگیز

ٹیکس وصولی کا ہدف پورا نہ ہونے پر ایک بار پھر منی بجٹ کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ اور غالب امکان یہی ہے کہ منی بجٹ کی صورت مہنگائی کا ایک اور بم پاکستان کے غریب عوام پر گرا ہی جاتا ہے۔

وہ ملک اور ہوتے ہیں جہاں بجٹ عوام کے مفاد میں بنائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ہر بجٹ عوام کے نام پر بنایا جاتا ہے، لیکن اس میں صرف اعلان اور نام کی حد تک عوام کا مفاد ہوتا ہے۔ ان بجٹوں میں اعداد و شمار کا گورکھ دھندا دکھا کر عوام کو ہی پیس دیا جاتا ہے۔ ہمارا سالانہ بجٹ ہو یا وقفے وقفے سے آنے والے منی بجٹ، حقیقت میں نئے ٹیکسز عائد کرنے کے پروانے ہوتے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق حکومت کو ابھی سے مالی سال کے اختتام پر ٹیکس ہدف پورا نہ ہونے کا خوف سوار ہے، جس کا اشارہ ستمبر میں 150 ارب روپے کے شارٹ فال سے مل رہا ہے۔ حکومت نے اسی خطرے کے پیش نظر ایک کھرب روپے کا منی بجٹ لانے کی تیاری شروع کر دی ہے، جس میں سیلز ٹیکس استثنیٰ ختم اور ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کیا جا سکتا ہے۔

- Advertisement -

ہمیشہ کی طرح امید نہیں بلکہ 100 فیصد یقین ہے کہ اس بار بھی ٹیکس کا نزلہ پاکستان اس غریب اور تنخواہ دار طبقے پر ہی گرے گا، جس کی حالت پہلے ہی سالانہ بجٹ اور حکومتی اقدامات نے ’’آمدنی اٹھنی اور خرچہ روپیہ‘‘ کے مترادف کر دی ہے، اور اس کا پیدا ہونے والا بچہ بھی پیدائشی لگ بھگ تین لاکھ روپے کا مقروض پیدا ہو رہا ہے۔ دوسری جانب امیر تو پہلے ہی ٹیکس کیا قرضے تک ڈکار جاتے ہیں۔ امرا اور اشرافیہ اول تو ٹیکس دیتے نہیں، اگر دیتے بھی ہیں تو وہ ان کی دولت کے مقابلے میں ایسا ہی ہے جیسے کہ آٹے میں نمک، بلکہ شاید اس سے بھی کم۔

اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ ریاستیں عوام کے ٹیکس سے ہی چلتی ہیں، مگر ان ٹیکسز سے اس ملک کے عوام کو ہی فائدہ پہنچایا جاتا ہے، لیکن ہمارے ہاں اس کا الٹ ہے۔ عوام 40 کے قریب مختلف ٹیکس در ٹیکس دے کر بھی اپنی جان و مال کی حفاظت، تعلیم، صحت، صفائی کا بندوبست خود کرنے پر مجبور ہیں۔ بجلی بیچ کوئی اور رہا ہے، لیکن سیلز اور انکم ٹیکس عوام سے وصول کیا جا رہا ہے اور یہ مہذب دنیا میں عوام سے کیا جانے والا شاید سب سے سنگین اور رنگین مذاق ہے۔ لیکن کیا کریں کہ ہماری قوم بھی بوجھ تلے دب، دب کر اب اس کی عادی ہو گئی ہے اور حکمرانوں کو بھی احساس ہوچکا ہے کہ نام کی زندہ دل قوم، اندر سے اتنی سکت بھی نہیں رکھتی کہ خود اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھا سکے۔ جب کہ وہ لوگ جو ٹیکس دینے میں بخیل ہیں وہ لاکھوں تنخواہ کے ساتھ مذکورہ مراعات مفت میں حاصل کرتے ہیں اور یہی اس ملک کا المیہ ہے۔

درجن بھر ظاہر اور مخفی ٹیکسوں سے لبالب بجلی بلوں پر شاید اب ایک یہی ٹیکس باقی رہ گیا ہے کہ جو پرندے آزادانہ اس کے تاروں پر بیٹھنے کی جرات کرتے ہیں اس کا کرایہ بھی وصول کیا جائے، کہ جب زمین پر بے زبان انسانوں کو کوئی چھوٹ نہیں تو پھر آسمان پر اڑتے بے زبان کیوں اس رعایت سے مستفید ہوں۔ بس طے یہ کرنا ہوگا کہ یہ کرایہ کس طور وصول کیا جائے۔ آیا کہ جس گھر کے تار کے آگے پرندے بیٹھیں گے، اس کا کرایہ اسی صارف سے وصول کیا جائے یا جس طرح بجلی چوری اور شارٹ فال کا لوڈ صارفین پر مشترکہ ڈالا جاتا ہے، اسی ترکیب کو بروئے کار لایا جائے۔ ہم یقین دلاتے ہیں کہ قوم اس ٹیکس کو بھی بہ رضا و رغبت قبول کر لے گی اور کچھ نہیں کہے گی، کیونکہ جب وہ بغیر پی ٹی وی دیکھے، ریڈیو سنے اور اپنے خرچ پر گھر اور محلے کی صفائی کرانے کے باوجود یہ تمام ٹیکسز دے سکتی ہے تو پرندوں کے تار پر بیٹھنے کا ٹیکس تو خدمتِ بے زباں کے جذبے سے سرشار ہو کر ہنستے کھیلتے دے دے گی۔

دوبارہ آئیں منی بجٹ کی نعمت مترقبہ کی جانب، تو اب تک حکومت کے معاشی ماہرین سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہوں گے کہ اب کون سے ایسے گوشے رہ گئے ہیں جہاں نئے ٹیکس لگائے جائیں جو جونکوں کی مانند عوام کا خون مزید چوس سکیں۔ اس کے لیے ہم حکومت کی مدد کر دیتے ہیں، امید ہے کہ حکومت کے زرخیز ذہن اس پر توجہ مبذول کرتے ہوئے قابل عمل بنانے کی راہ ڈھونڈ لیں گے، کیونکہ جہاں ان کا فائدہ اور عوام کی عار کا معاملہ ہو تو سب مل جل کر راہ نکال ہی لی جاتی ہے۔

اب آجاتے ہیں اصل بات کی طرف کہ حکومت کی آمدنی کیسے بڑھائی جائے۔ قدرت نے ایسے بیش بہا خزانوں سے پاکستان کو مالا مال کیا ہے اور عوام اب تک مفت میں ان خزانوں سے مستفید ہو رہی ہے۔ ان نعمتوں میں چند ایک یہ ہیں، جن پر ٹیکس لگا کر عوام کو لگام اور حکومتی خزانے کو بھرا جا سکتا ہے۔ عوام پر سال کے 10 ماہ چمکتے دمکتے سورج سے مستفید ہونے اور سولر چلانے، فرفر چلتی ہوا سے لطف اندوز ہونے اور سانس لے کر زندہ رہنے پر ٹیکس عائد کر دیا جائے۔ سردی میں دھوپ سینکنے، گرمی میں بارش سے پانی سے نہانے، چاند کی چاندنی سے محظوظ ہونے، لوڈشیڈنگ کے دوران اچانک بجلی اور گیس آ جانے پر حاصل ہونے والی خوشی پر بھی ٹیکس لگایا دیا جائے۔

بجلی لوڈشیڈنگ کے دوران جب لوگ گرمی سے بچنے کے لیے خودکار دستی پنکھے جھلتے ہیں تو وہ مفت میں ورزش کرتے ہیں۔ جب حکومت مفت کی کوئی بھی سہولت غریب عوام پر حرام بنانے پر تُل گئی تو پھر اس بے مول ورزش پر بھی ٹیکس لگا دیا جائے۔ ٹیکسز اور مہنگائی کے بوجھ تلے دبنے کے باوجود ڈھیٹ عوام زندہ کس طرح ہے، اس کی زندگی پر بھی ٹیکس لگا دیا جائے کہ لاہور میں مرنے کے بعد قبروں پر ٹیکس تو پہلے ہی لگ چکا ہے۔
ٹیکس تو مزید کئی دیگر معاملات پر بھی لگائے جا سکتے ہیں، لیکن حکومت نے اس منی بجٹ کے بعد اگلا منی بجٹ بھی کچھ ماہ بعد پیش کرنا ہوگا تو کچھ مشورے اگلے مرحلے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ یقین ہے کہ جس طرح قانونی موشگافیاں کرتے ہوئے ہمارا حکمراں طبقہ ہر مسئلے کا حل نکال لیتا ہے اور مرضی کی قانون سازی کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اسی طرح وہ ان ٹیکسوں کو نافذ کرنے میں کوئی بھی تُک بندی کر کے کامیاب ہوسکتا ہے، بس اس کے لیے صرف تھوڑا سا مزید بے حس اور آنکھوں سے شرم ختم کرنا ہوگی۔

Comments

اہم ترین

ریحان خان
ریحان خان
ریحان خان کو کوچہٌ صحافت میں 25 سال ہوچکے ہیں اور ا ن دنوں اے آر وائی نیوز سے وابستہ ہیں۔ملکی سیاست، معاشرتی مسائل اور اسپورٹس پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ قارئین اپنی رائے اور تجاویز کے لیے ای میل [email protected] پر بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔

مزید خبریں