ہفتہ, فروری 22, 2025
اشتہار

میر تقی میرؔ کا وہ درد انگیز شعر جو کسی زبان میں مشکل ہی سے ملے

اشتہار

حیرت انگیز

میر تقی میرؔ سرتاج شعرائے اردو ہیں۔ ان کا کلام اسی ذوق و شوق سے پڑھا جائے گا جیسے سعدی کا کلام فارسی زبان میں۔ اگر دنیا کے ایسے شاعروں کی ایک فہرست تیار کی جائے جن کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا تو میرؔ کا نام اس فہرست میں ضرور داخل کرنا ہو گا۔

یہ ان لوگوں میں نہیں ہیں جنھوں نے موزونی طبع کی وجہ سے یا اپنا دل بہلانے کی خاطر یا دوسروں سے تحسین سننے کے لیے شعر کہے ہیں، بلکہ یہ ان لوگوں میں سے ہیں جو ہمہ تن شعر میں ڈوبے ہوئے تھے اور جنھوں نے اپنے کلام سے اردو کی فصاحت کو چمکایا اور زبان کو زندہ رکھا۔

سرہانے میرؔ کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے

یہ شعر کس قدر سادہ ہے، اس سے زیادہ آسان، عام اور معمولی الفاظ اور کیا ہوں گے لیکن اندازِ بیان درد سے لبریز ہے اور لفظ لفظ سے حسرت و یاس ٹپکتی ہے۔ اردو کیا مشکل سے کسی زبان میں اس پائے کا اور ایسا درد انگیز شعر ملے گا۔ ایک دوسری بات اس شعر میں قابلِ غور یہ ہے کہ جو شخص دوسروں کو غل نہ کرنے اور آہستہ بولنے کی ہدایت کر رہا ہے، وہ بھی بیمار کے پاس بیٹھا ہے، اور اس پر لازم ہے کہ یہ بات آہستہ سے کہے۔ اس کے لئے یہ ضرور ہے کہ لفظ ایسے چھوٹے، دھیمے اور سلیس ہوں کہ دھیمی آواز میں ادا ہو سکیں۔ اب اس شعر کو دیکھیے کہ لفظ تو کیا ایک حرف بھی ایسا نہیں جو کرخت ہو یا ہونٹوں کے ذرا سے اشارے سے بھی ادا نہ ہو سکتا ہو۔

جو اس شور سے میرؔ روتا رہے گا
تو ہمسایہ کا ہے کو سوتا رہے گا

اس میں کوئی خاص مضمون یا بات نہیں، مگر شعر کس قدر پُر درد ہے، دوسرے مصرعے نے اسے نہایت درد انگیز بنا دیا ہے۔ یہ سلاست اور یہ اندازِ بیان اور اس میں یہ درد میرؔ صاحب کا حصہ ہے، ان اشعار کے سامنے صنائع و بدائع، تکلف و مضمون آفرینی، فارسی، عربی ترکیبیں کچھ حقیقت نہیں رکھتی ہیں۔

(مقدمۂ انتخابِ میر از مولوی عبدالحق سے اقتباس)

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں