جمعہ, دسمبر 20, 2024
اشتہار

میر غم کے شاعر نہ ہوتے تو ہمارے لیے بڑے شاعر بھی نہ ہوتے

اشتہار

حیرت انگیز

میر کو غم کا شاعر بتایا جاتا ہے۔

اگر اس سرسری اور مبہم رائے کو تسلیم کر لیا جائے تو داغ اور میر اور ان کے قبیل کے چند دوسرے شاعرو ں کو چھوڑ کر اردو غزل کا کون شاعر ہے جوغم پرست نہیں اور جس کی آوازغم کی آواز نہیں۔ خاص کر میر کے دور میں جو اردو غزل کا سب سے بڑا دور مانا جاتا ہے، غم دوستی اور یاس پرستی ہر چھوٹے بڑے شاعر کے خمیر میں داخل تھی اور اس کے کلام کی اصل روح تھی۔ یہاں تک کہ سودا کی غزلوں کا بھی بیشتر حصہ غم ناکی ہی کے رنگ میں ڈوبا ہوا ہے۔

سودا جیسا چنچل مزاج رکھنے والا جو قصیدہ اور ہجو کا بھی ایسا ہی ماہر ہو، جب اپنے زمانے کی دھندلی فضا کے دل بجھا دینے والے اثرات سے بچ نہ سکا تو ہم کسی اور کو کیا کہیں۔

- Advertisement -

ایک بات اور بھی قابلِ لحاظ ہے۔ سودا کی ہجوؤں کو اچھی طرح غور سے پڑھیے تو پتہ چل جائے گا کہ وہ بھی اپنے زمانے سے شدید ناآسودگی ظاہر کر رہی ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ یہاں غم نفرت اور حقارت کے جذبہ میں تبدیل ہو گیا ہے۔ جو بالآخر اشعار میں طنز، تمسخر اور استہزا کی صورت میں نمودار ہو رہے۔ اس سلسلہ میں یہ یاد رکھیے کہ طنز نگار اور مسخرا درپردہ سنجیدہ لوگوں سے زیادہ یاس پرست ہوتا ہے۔ اس کو زندگی میں کوئی حسین اور روشن پہلو نظر نہیں آتا، ورنہ وہ اپنے طنز اور ظرافت کے لیے مواد ہی نہ پائے۔

اس کے علاوہ سودا کے اکثر قصیدے جو نعت اور منقبت میں لکھے گئے ہیں ان کا لہجہ عام طور سے وہی ہے جو ان کی غزلو ں کا ہے۔ خاص کر تشبیہیں تو ایسی ہوتی ہیں کہ غزل سے زیادہ عبرت و بصیرت کا احساس پیدا کرکے ہم کو زندگی کی تمام دنیوی قدروں سے دل برداشتہ کر دیتی ہیں۔ یہ سودا کا مزاج نہیں تھا، بلکہ ان کے زمانے کا مزاج تھا۔

ہاں تو ہم کو یہ تسلیم کرنے میں تأمل نہیں کہ میر غم کے شاعر ہیں۔ میر کا زمانہ غم کا زمانہ تھا اور اگر وہ غم کے شاعر نہ ہوتے تو وہ اپنے زمانے کے ساتھ دغا کرتے اور ہمارے لیے بھی اتنے بڑے شاعر نہ ہوتے۔ بعد کے ادوار کے لیے وہی بڑا شاعر ہوا ہے جو اپنے زمانہ کی سچی مخلوق ہو اور اس کی پوری نمائندگی کرے۔ لیکن میر اور ان کے دور کے دوسرے شاعروں کے درمیان آخر فرق کیا ہے؟ اور وہ ہمارے لیے ایسے ناقابلِ تردید بڑے شاعر کیوں ہیں؟

بات یہ ہے کہ دوسرے یا توغم غلط کرنے کی کوشش میں لگ گئے یا غم کے شکار اور زندگی کے لیے بیکار ہو کر رہ گئے۔ میر نے غم کو نہ صرف ایک مقدر کی طرح تسلیم کر لیا، بلکہ غم کو زندگی کی ایک نئی قوت میں تبدیل کر دیا۔ ان کے مشہور چار مصرعے پڑھیے،

ہر صبح غموں میں شام کی ہے ہم نے
خوننابہ کشی مدام کی ہے ہم نے
یہ مہلت کم کہ جس کو کہتے ہیں عمر
مر مر کے غرض تمام کی ہے ہم نے

یہ شکست خوردگی یا مغلوبیت یا وہ سپردگی نہیں جو انفعالیت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یہ وہ جذبۂ بغاوت ہے جو نفس کی تربیت اور زندگی کی معرفت کی تمام منزلوں سے گزر کر ایک جوہری قوت یا عنصری تاثیر بن گیا ہے۔ میر ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو ذاتی محرومیوں اور نا مرادیوں میں اس طرح کھو جاتے کہ یہ ہوش باقی نہ رہتا کہ گرد و پیش میں دوسروں پر کیا بیت رہی ہے۔ وہ اپنے اور دوسرے کے غم کو ’’غمِ عشق‘‘ کی زبان یعنی غزل کے روایتی اسلوب میں بیان کرتے تھے۔ لیکن ان کا پیغام تڑپنا، تلملانا اور چھاتی پیٹنا نہیں ہے۔ وہ ان تمام آلام و مصائب میں بھی جو انتہائی شکست کا نتیجہ ہوتی ہے، سینہ تانے رہنے اور سر اونچا رکھنے کا حوصلہ ہمارے اندر پیدا کرتے ہیں۔

(مجنوں گورکھپوری کے مضمون سے اقتباس)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں