پیر, اپریل 28, 2025
اشتہار

مرزا فرحت اللہ بیگ:‌ حسنِ بیان اور شگفتگی ان کی تحریروں کا خاصّہ ہیں

اشتہار

حیرت انگیز

مرزا فرحت اللہ بیگ کی وجہِ شہرت ان کی مزاح نگاری ہے، لیکن وہ ایک ایسے ادیب بھی تھے جن کے قلم نے شان دار شخصی خاکے، ادبی تذکرے اور بہت واقعات سے بھی جمع کیے جو ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ آج مرزا صاحب کی برسی ہے۔

مرزا فرحت اللہ بیگ کی تحریروں میں طنز کا عنصر کم ہے، بلکہ انھوں نے جہاں بھی طنزیہ انداز اپنایا ہے، وہاں حسبِ ضرورت مزاح کا سہارا بھی لیا ہے۔ مرزا فرحت اللہ بیگ کی تحریروں کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ ان کے طنز میں شدت نہیں ہے۔ تقسیمِ ہند سے چند ماہ قبل 27 اپریل 1947ء کو مرزا صاحب دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

انشا پرداز اور ادیب مرزا فرحت اللہ بیگ نے خالص ادبی تحریروں کے علاوہ مختلف موضوعات مثلاً تاریخ و سوانح میں بھی طبع آزمائی کی اور ان میں بھی وہ اکثر جگہ مزاح سے کام لیتے ہیں۔ مرزا صاحب کے تین مضامین ان کی خاص پہچان ہیں جو اس دور میں بعنوان نذیر احمد کی کہانی، کچھ میری کچھ ان کی زبانی، دہلی کی آخری شمع (ایک مشاعرہ) اور پھول والوں کی سیر شایع ہوئے تھے۔ تاریخِ اردو ادب میں‌ مرزا فرحت اللہ بیگ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ خاکہ نگار کی حیثیت سے بہت مشہور ہیں اور ان خاکوں کو ہر دل عزیز بنانے میں مرزا کی فطری ظرافت کو بہت دخل ہے۔ انھوں نے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا۔ تنقید، افسانہ، سوانح، سیرت، معاشرت و اخلاق کی طرف انھوں نے توجہ کی لیکن ان کی اصل شہرت ظرافت نگاری ہے۔

مرزا فرحت اللہ بیگ کا عہد ہندوستان کی تاریخ کا عبوری دور تھا۔ تہذیبی تصادم کا یہ دور جس میں 1857ء نقطۂ عروج کی حیثیت رکھتا ہے، زوال، انحطاط، مایوسی، محرومی اور احساسِ شکست کا آئینہ دار بھی تھا اور غیرملکی اقتدار کا مرقع بھی۔ اسی عہد میں سیاسی، سماجی، ملی اور ادبی تحریکات کی نشو و نما بھی ہوئی اور اسی دور میں دماغوں سے قدامت کا رنگ بھی چھوٹنا شروع ہوا۔ اسی عہد میں قدیم و جدید کی کشمکش اپنی انتہا کو پہنچی اور آخرکار قدیم تہذیب، قدیم علوم اور قدیم اندازِ فکر کو شکست تسلیم کرنا پڑی۔ معاشرے نے کروٹ بدلی اور تمدن کے ایک شاندار دور کا خاتمہ ہو گیا۔

مرزا فرحت اللہ بیگ نے ہندوستان پر انگریزوں کے قبضے اور جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد ستمبر 1883ء میں دہلی میں آنکھ کھولی تھی۔ تاریخِ اردو ادب میں‌ لکھا ہے کہ ان کے اجداد شاہ عالم ثانی کے عہد میں ترکستان سے آئے اور دہلی کو اپنا وطن بنایا تھا۔ یہاں کالج کی تعلیم کے دوران مولوی نذیر احمد سے ملاقات ہوئی۔ ان سے نہ صرف عربی زبان و ادب کی تعلیم حاصل کی بلکہ ان کی شخصیت کا گہرا اثر بھی قبول کیا۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد حیدرآباد دکن گئے تھے اور وہاں سے معاش کا خوب انتظام ہوا۔ وہیں‌ وفات پائی اور دفن بھی دکن کی مٹی میں‌ ہوئے۔

1905 میں بی اے کا امتحان پاس کرکے 1907 تک دہلی میں مقیم رہے۔ 1908 میں وہ حیدرآباد (دکن) چلے گئے جہاں گورنمنٹ اسکول چادر گھاٹ کی مددگاری پر پہلا تقرر ہوا۔ پھر ہائیکورٹ کے مترجم ہوگئے اور اس کے بعد اسپیشل مجسٹریٹ، سیشن جج اور آخر میں ہائیکورٹ کے انسپکٹنگ آفیسر بنے جو ہائیکورٹ کے جج کے مساوی عہدہ تھا۔

ان کی تصنیف ’’دلی کا آخری یادگار مشاعرہ‘‘ مرقع نگاری کا عمدہ نمونہ ہے۔ مولوی نذیر احمد کو انہوں نے بہت قریب سے دیکھا اور بہت برسوں دیکھا۔ اسی قرابت اور نذیر احمد کی دل چسپ شخصیت نے "نذیر احمد کی کہانی” ان سے لکھوائی۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کہانی نے نہ صرف موصوف کے فن کو اجاگر کیا، بلکہ انھوں نے حقِ شاگردی ادا کیا اور انوکھی طرز کی کردار نگاری کا سنگ بنیاد رکھ کر اپنے فن و تخلیق کی داد بھی پائی۔ ’’مولوی نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی‘‘ میں مرزا صاحب نے ان کی ہوبہو تصویر اتاری ہے۔ یہ خاکہ ہندوستان کے ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہوا۔ مولوی وحید الدین سلیم جیسے اہل قلم کو یہ خاکہ ایسا پسند آیا کہ انھوں نے بھی مرزا صاحب سے اپنا خاکہ لکھنے کی فرمائش کردی۔ ان کی وفات کے بعد مرزا نے اس فرمائش کو پورا کیا اور اس خاکے کو ’’ایک وصیت کی تعمیل میں‘‘ کا نام دیا۔ فرحت اللہ بیگ نے بڑی تعداد میں مضامین لکھے جو مضامینِ فرحت کے نام سے سات جلدوں میں شائع ہوچکے ہیں۔ شاعری بھی کی لیکن یہ ان کا اصل میدان نہیں۔

دہلی کی ٹکسالی زبان پر انہیں بڑی قدرت حاصل تھی اور شوخی ان کی تحریر کا خاصّہ تھا۔ ادبی ناقدین کے مطابق وہ کسی موضوع یا کسی شخصیت پر قلم اٹھاتے ہیں تو چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز نہیں کرتے اور اس جزئیات نگاری سے قاری لطف اندوز ہوتا ہے۔

مرزا صاحب کے مضامین کا مجموعہ اردو کے قارئین میں بہت مقبول رہا ہے اور ان کی ایک خودنوشت بھی بہت پسند کی گئی جس پر ڈاکٹر اسلم فرخی لکھتے ہیں، اُردو کے نامور نثر نگار مرزا فرحت اللہ بیگ کی یہ خودنوشت ’’میری داستان‘‘ دراصل ایک ’’دفتر بیتی‘‘ ہے جو آپ بیتی کے تمام پہلوؤں کی بجائے صرف ایک پہلو یعنی ان کی دفتری زندگی اور کارناموں پر محیط ہے۔ مرزا صاحب نے انسانی زندگی کو ایک قید سے تعبیر کیا ہے اور اس قید کے پانچ حصے کیے ہیں۔ حصہ اوّل ماں کا پیٹ۔ دوسرا حصہ بڑے بوڑھوں کی قید۔ سوم حصہ مدرسے کی قید۔ چوتھا حصہ نوکری کی قید اور آخری حصہ قبر کی قید۔ یہ تقسیم ان کی بڑی خوش طبعی پر مبنی ہے۔

’’میری داستان‘‘ اپنے تمام کرداروں کے صحیح تشخص کے باوجود ایک زبردست عوامی میلہ ہے جس میں قہقہے ہیں، چہچہے ہیں، بھیڑ بھاڑ ہے، آدمی پر آدمی گر رہا ہے، ہنڈولے جھول رہے ہیں، چرخ جھوم رہے ہیں، حلوائیوں کی دکانوں پر مٹھائی کے تھال سجے ہیں، کڑھاؤ چڑھے ہیں، پوریاں تلی جا رہی ہیں، کہیں ناچ گانا ہو رہا ہے، کہیں بھنڈی کی دھوم دھام ہے۔ یہ حسنِ بیان، ذہانت، انشاء پردازی اور ادبِ عالیہ کا شاہ کار ہیں۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں