غالب اردو کے وہ عظیم شاعر ہیں جن کا کلام اور جن کی شخصیت برصغیر میں ہر خاص و عام اور ہر طبقۂ فکر سے تعلق رکھنے والوں میں مقبول ہے۔ اپنے زمانے کے مشہور اسلامی مفکّر اور جماعتِ اسلامی کے بانی مولانا مودودی بھی مرزا غالب کے پرستاروں میں سے ایک تھے۔
مولانا مودودی نے اپنی کتاب "شخصیات” میں خود کو مرزا غالب کی شاعری کا مداح لکھا ہے اور بتایا ہے کہ وہ کس طرح غالب سے ایک قسم کا ذاتی تعلق بھی رکھتے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔
"مرزا اسد اللہ خان غالب کے کلام ہی کا مداح نہیں ہوں، بلکہ ان سے میرا ایک ذاتی تعلق بھی ہے۔ میرے نانا، مرزا قربان علی بیگ سالک مرحوم، ان کے خاص شاگردوں میں سے تھے اور ان کا مکان بھی دہلی میں میری ننھیال کے مکان سے بالکل متصل واقع تھا۔ اس طرح میں نے آنکھیں ہی ایک ایسے خاندان میں کھولی ہیں جو ان کے کلام ہی سے نہیں، ان کی ذات سے بھی بہت قریبی تعلقات رکھتا تھا۔ مجھے بچپن سے ان کے کلام کے ساتھ عشق رہا ہے اور میں ان کو ہند و پاکستان ہی کے نہیں، دنیا کے شعراء کی صفِ اوّل کا شاعر سمجھتا ہوں۔ یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہمارے اندر ایسا بے نظیر سخن ور پیدا ہوا، اور یہ اس کی بدقسمتی تھی کہ وہ ایک پس ماندہ قوم کے بھی انتہائی انحطاط کے زمانے میں پیدا ہوا۔ جس کی وجہ سے دنیا نے شعر و ادب کی تاریخ میں آج تک اس کو وہ مقام بھی نہ دیا جو اس سے بہت فرو تر درجے کے شعراء کو صرف اس لیے مل گیا کہ وہ ایک جان دار قوم میں پیدا ہوئے تھے۔”
(اقتباس)