تازہ ترین

نجات کا طالب غالب

مرزا غالب کی غزلیں‌ ہی نہیں ان کے خطوط بھی مشہور ہیں۔ غالب نے اردو زبان میں خطوط نویسی میں پُر تکلّف زبان، القاب اور روایتی طریقۂ سلام و پیام کو اہمیت نہ دی بلکہ اس روش کو ترک کر کے اردو خطوط نویسی کو خوش مزاجی، لطف اور تازگی سے بھر دیا۔ ابنِ‌ انشاء اردو کے ممتاز مزاح نگار اور شاعر تھے جن کی کتاب خمارِ گندم میں شامل غالب کا ایک فرضی خط یہاں ہم نقل کر رہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

منشی صاحب میاں داد خاں سیاح

یہ خط نواب غلام بابا خاں کے توسط سے بھیج رہا ہوں کہ تمہارا تحقیق نہیں اس وقت کہاں ہو۔ اشرف الاخبار تمہارے نام بھجوایا تھا، وہ واپس آگیا کہ مکتوب الیہ شہر میں موجود نہیں۔ اس اخبار کے مہتمم صاحب کل آئے تو کچھ اخبار بلاد دیگر کے دے گئے کہ مرزا صاحب انہیں پڑھیے اور ہو سکے تو رنگ ان لوگوں کی تحریر کا اختیار کیجیے کہ آج کل اسی کی مانگ ہے۔

یہ اخبار لاہور اور کرانچی بندر کے ہیں۔ کچھ سمجھ میں آئے کچھ نہیں آئے۔ آدھے آدھے صفحے تو تصویروں کے ہیں۔ دو دو رنگ کی چھپائی موٹی موٹی سرخیاں۔ افرنگ کی خبریں۔ اگر بہت جلد بھی آئیں تو مہینہ سوا مہینہ تو لگتا ہی ہے لیکن یہ لوگ ظاہر کرتے ہیں کہ آج واردات ہوئی اور آج ہی اطلاع مل گئی۔ گویا لوگوں کو پرچاتے ہیں۔ بے پر کی اڑاتے ہیں۔ پھر ایک ہی اخبار میں کشیدہ کاری کے نمونے ہیں، ہنڈیا بھوننے کے نسخے ہیں۔ کھیل تماشوں کے اشتہار ہیں۔ ایک لمبا چوڑا مضمون دیکھا، ’’اداکارہ دیبا کے چلغوزے کس نے چرائے۔‘‘ سارا پڑھ گیا۔ یہ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا بات ہوئی۔ کسی کی جیب سے کسی نے چلغوزے نکال لیے تو یہ کون سی خبر ہے۔

خیر یہ سب سہی، لطیفے کی بات اب کہتا ہوں۔ کرانچی کے ایک اخبار میں میرے تین خط چھپے ہیں۔ ایک منشی ہرگوپال تفتہ کے نام ہے، ایک میں نواب علائی سے تخاطب اور ایک میر مہدی مجروح کے نام۔ میں حیران کہ ان لوگوں نے میرے خطوط اخبار والوں کو کیوں بھیجے۔ اب پڑھتا ہوں تو مضمون بھی اجنبی لگتا ہے۔ اب کہ جو شراب انگریزی سوداگر دے گیا ہے کچھ تیز ہے۔ اور یہ سچ ہے کہ کبھی کبھی کیفیت اک گونہ بے خودی سے آگے کی ہو جاتی ہے۔ یا تو میں نے اس عالم میں لکھے اور کلیان اٹھا کر ڈاک میں ڈال آیا۔ یا پھر کسی نے میری طرف سے گھڑے ہیں اور اندازِ تحریر اڑانے کی کوشش کی ہے۔ کونے میں کسی کا نام بھی لکھا ہے، ابنِ انشا۔

کچھ عجب نہیں یہی صاحب اس شرارت کے بانی مبانی ہوں۔ نام سے عرب معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن یہ کیا حرکت ہے۔ سراسر دخل در معقولات ہے۔ اخبار نویسی میں ٹھٹول کیا معنی؟ بھئی مجھے بات پسند نہیں آئی۔ امید ہے وہ ٹوپیاں تم نے نواب صاحب کو پہنچا دی ہوں گی۔ نواب صاحب سے میرا بہت بہت سلام اور اشتیاق کہنا۔ میں سادات کا نیاز مند اور علی کا غلام ہوں۔

نجات کا طالب
غالب

Comments

- Advertisement -