قیامِ پاکستان کے بعد فلم انڈسٹری میں پچاس کا پہلا عشرہ اداکار سدھیر کو مقبولیت کی بلندیوں پر لے گیا۔ وہ ایکشن فلموں کے مقبول اور کام یاب ہیرو رہے۔ ان کی فلمیں تہلکہ خیز ثابت ہوئیں۔ لیکن فلم ’’غالب‘‘ میں سدھیر کو شائقین نے بالکل پسند نہیں کیا۔ فلم غالب 1961 آج ہی کے روز ریلیز ہوئی تھی۔
سدھیر پاکستانی فلموں میں جنگجو ہیرو کے طور پر شائقین میں بہت مقبول تھے اور اس تاریخی فلم میں ان کو مرزا غالب کے روپ میں پیش کیا گیا تھا اور یہ کردار اُن کے لیے بھی بڑا چیلنج تھا۔ برصغیر کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خاں غالب کی زندگی پر مبنی اس فلم میں مغلیہ سلطنت کے زوال اور دہلی کی ماند پڑتی رونق کی عکاسی بھی ہوتی ہے جس نے اسے تاریخی حیثیت دے دی تھی۔
فلم غالب کراچی کے ناز سنیما اور لاہور کے ریوالی سینما میں ریلیز ہوئی اور شائقین نے اسے پسند کیا۔ تاہم یہ کئی اعتبار سے کمزور فلم تھی۔ یہ فلم ایک طرف بکھرتے ہوئے دلّی کو دکھاتی ہے اور دوسری طرف اس افراتفری اور انتشار کے زمانے میں بطور شاعر ابھرتے ہوئے غالب کو بھی سامنے لاتی ہے۔ اس سے قبل بھارت میں بھی اس عظیم شاعر پر ’’مرزا غالب‘‘ کے نام سے فلم بن چکی تھی، اور اس میں بھارت بھوشن نے غالب کا کردار ادا کیا تھا۔ پاکستان میں فلم ساز اور ہدایت کار عطاء اللہ شاہ ہاشمی نے یہ فلم بنائی تو جنگجو ہیرو کے طور پر شہرت یافتہ اور مقبول اداکار سدھیر کو غالب کا رول سونپا۔ اس فلم کی کہانی شاعر غزنوی جب کہ مکالمے آغا شورش کاشمیری نے تحریر کیے تھے۔ اداکار سدھیر کا جو خاکہ شائقینِ سنیما کے ذہن میں تھا، اس سے ہٹ کر غالب کے روپ میں اس ‘فولادی شخصیت’ کو قبول کرنا شاید ان کے لیے بہت مشکل تھا۔ فلم بینوں کی اکثریت انھیں ایکشن کرداروں میں دیکھنا پسند کرتی تھی۔ لیکن ہاشمی صاحب نے ان کو یہ کردار دیا۔ اس فلم میں ایک اہم کردار طوائف کا تھا جو مرزا غالب پر دل و جان سے فدا تھی اور ان کی شاعری کی دیوانی تھی۔ وہ اپنے بالا خانے پر مجرے کرتے ہوئے اکثر غالب کا کلام گایا کرتی تھیں۔ یہ عورت بازارِ حسن میں ’’چودہویں‘‘ کے نام سے مشہور تھی۔ یہ کردار ملکۂ ترنم نور جہاں نے ادا کیا تھا۔
اداکارہ یاسمین نے اس فلم میں مرزا غالب کی بیوی کا کردار نبھایا تھا، جو غالب کی آزاد طبیعت، اپنے دوستوں کے ساتھ شطرنج کی بازیاں لگانے اور مے نوشی سے بے حد تنگ تھیں۔ ادھر بازارِ حسن کا ایک اور کردار خورشید بائی بھی غالب پر مر مٹتی ہے، مگر غالب تو صرف چودہویں کو چاہتے تھے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ خورشید بائی اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرپاتی اور غالب کے خلاف سازش کرتی ہے۔ ادھر چودہویں کی ماں اپنی بیٹی کو ایک کنگلے اور بدنام شاعر سے دور رکھنا چاہتی ہے اور یہ سمجھتی ہے کہ اس کی لڑکی عشق کرے گی تو بالا خانے کی رونق متاثر ہوگی۔
فلم کے دیگر اداکاروں میں لیلٰے، دلجیت مرزا، سلیم رضا، غریب شاہ، جی این بٹ اور اداکار ساقی نے بھی کام کیا۔
فلم میں غالب کے کردار کو ایک عاشق اور رومان پرور شاعر کے طور پر اس طرح دکھایا گیا ہے کہ وہ اردو شاعری میں ان کی حیثیت اور مقام کی عکاسی نہیں کرتا۔ موسیقار تصدق حسین نے اس فلم میں مرزا غالب کی غزلوں کو اپنی دھنوں میں خوب صورتی سے پیش کیا ہے۔
فلم میں غالب کی مشہور غزل ’’مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے‘‘ نورجہاں کی آواز میں بہت پسند کی گئی۔
اداکار سدھیر نے بڑی ریاضت سے اور بخوبی مرزا غالب کا کردار نبھایا، لیکن فلم بینوں نے انھیں اس روپ میں قطعاً پسند نہیں کیا۔ نور جہاں نے چودھویں کا کردار بڑی عمدگی سے نبھایا۔ اداکارہ نے فطری انداز میں ایک نوجوان طوائف کی زندگی اور عشق میں بے قراری کو اپنی آواز کے اتار چڑھاؤ اور نرمی و مٹھاس سے دل فریب بنایا۔
فلم میں کئی مناظر میں کمی اور ہدایت کاری کی کمزوریاں بھی نظر آتی ہیں جس میں ایک طرف تو غالب کو صحیح معنوں میں پیش نہیں کیا جا سکا جب کہ کچھ ملبوسات بھی اس دور سے مطابقت نہیں رکھتے تھے، اور یہ فلم کے مجموعی تأثر پر اثر انداز ہوا۔ اس فلم کے بعد پاکستانی سنیما میں مرزا غالب جیسی عظیم ادبی شخصیت پر کوئی فلم نہیں بنائی گئی۔