برصغیر پاک و ہند میں اردو ناول نگاری کی تاریخ ڈیڑھ سو برس پرانی ہے، اور اردو میں ناول نگاری کے ابتدائی دور میں، جن چند مصنّفوں کو عوامی سطح پر خاصی شہرت ملی، ان میں مرزا ہادی رسوا بھی شامل ہیں۔ ’’امراؤ جان ادا‘‘ ان کا وہ ناول ہے جسے ہندوستان بھر میں مقبولیت ملی اور اس کا برصغیر کی علاقائی زبانوں کے ساتھ ساتھ بشمول انگریزی دنیا کی چند دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہوا۔
مرزا ہادی رسوا نے کئی ناول لکھے، جن میں ذات شریف، شریف زادہ اور اختری بیگم شامل ہیں، لیکن 1899ء میں شائع ہونے والے ناول’’امراؤ جان ادا‘‘ لازوال ثابت ہوا۔ ہادی رسوا کا ایک اور منفرد علمی پہلو مذہبی تحقیق و تدوین بھی ہے، انھوں نے متعدد مقالے لکھے اور کتابیں مرتب کیں لیکن اس حوالے سے بہت کم بات کی گئی ہے۔
ناول ’’امراؤ جان ادا‘‘ ایک طوائف کی زندگی کے گرد گھومتا ہے، جو تہذیب یافتہ اور زبان و ادب کے حوالے سے بھی مشہور تھی۔ یہ طوائف جو ایک عورت بھی ہے، اس کے جذبات و احساسات اور اس کی زندگی کے نشیب و فراز پر یہ ناول اردو کی مقبول کہانیوں میں سے ایک ہے۔ اس مشہورِ زمانہ ناول پر کئی فلمیں بنیں۔ برصغیر پاک و ہند میں اس ناول پر سب سے پہلی فلم 1972 میں پاکستان میں بنی۔ پاکستان کے معروف ہدایت کار حسن طارق نے اس میں امراؤ جان ادا کا کردار اداکارہ رانی سے کروایا، اور اس کے بعد بھارت میں 1981 میں اسی ناول پر ایک فلم بنائی گئی۔ مظفر علی کی اس فلم میں مرکزی کردار بھارت کی مقبول اداکارہ ریکھا نے ادا کیا۔
ناول نگار کا نام محمد ہادی، اور قلمی شہرت رسوا کے نام سے ہوئی۔ وہ لکھنؤ کے محلّہ ’’بگٹولہ‘‘میں 1858ء میں پیدا ہوئے۔ والدین کا سایہ سولہ سال کی عمر میں ہی سر سے اٹھ گیا۔ رشتے کے ایک ماموں نے پرورش کی لیکن تمام خاندانی ترکے پر قابض ہوگئے۔ فارسی کی درسیات اور ریاضی و نجوم کا علم اپنے والد سے حاصل کیا تھا۔ اس کے بعد عربی اور مذہبی علوم کی جانب متوجہ ہوئے۔ بعد ازاں انگریزی پڑھنی شروع کی۔ بعد میں پنجاب یونیورسٹی سے بی۔ اے کیا اور امریکہ کی اورینٹل یونیورسٹی سے پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی۔ متعدد درسگاہوں سے وابستہ رہے اور پھر 1919 ء کے آس پاس عثمانیہ یونیورسٹی، حیدرآباد کے دارالترجمہ سے وابستہ ہوگئے۔ وہاں بہت سی کتابیں تصنیف و ترجمہ کیں۔ کئی زبانیں جانتے تھے جن میں عربی، عبرانی، یونانی، انگریزی، فارسی، ہندی، سنسکرت شامل ہیں۔ مختلف مشرقی و دنیوی علوم پر آپ کو دسترس حاصل تھی۔
مرزا صاحب ایک اچھے شاعر بھی تھے لیکن بحیثیت ناول نگار ہی ان کی شہرت ہوئی۔ 21 اکتوبر 1931ء کو حیدرآباد دکن میں مرزا ہادی رسوا کا انتقال ہوگیا اور وہیں قبرستان باغ راجہ مرلی دھر تڑپ بازار میں دفن ہوئے۔