مرزا ظفر الحسن اردو زبان کے نام ور مصنّف، افسانہ نگار، براڈ کاسٹر، ادبی نقّاد اور ادارۂ یادگار غالب کراچی کے بانی سیکریٹری جنرل تھے جنھیں 4 ستمبر 1984 کو دستِ اجل نے ہم سے چھین لیا تھا۔ انھوں نے اپنی یادداشتوں اور ادبی شخصیات کے تذکروں پر مبنی متعدد کتب یادگار چھوڑی ہیں۔
سنگا ریڈی، ضلع میدک، حیدرآباد دکن کے ظفر الحسن کو ان کا علمی و ادبی ذوق دکن ریڈیو تک لے گیا تھا جہاں انھوں نے ملازمت کے دوران اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور یہاں اردو زبان و ادب کی خدمت اور فن سے متعلق سرگرمیوں میں مشغول ہوگئے۔
3 جون 1916ء کو پیدا ہونے والے مرزا ظفر الحسن نے معاشیات میں ایم اے کیا۔ وہ دکن کی عالمی سطح پر پہچان رکھنے والی جامعہ عثمانیہ کے طالبِ علم تھے۔ زمانۂ طالب علمی میں وہ انجمنِ طلبۂ جامعہ عثمانیہ کے سیکریٹری بھی رہے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد نشر گاہ حیدرآباد سے وابستہ ہوئے اور وہاں بھی نام اور مقام بنایا۔
پاکستان آنے کے بعد انھوں نے ریڈیو پاکستان اور پھر الیکشن کمیشن آف پاکستان میں ملازمت اختیار کی۔ 1968ء میں کراچی میں ادارہ یادگارِ غالب کی بنیاد رکھی اور ایک مثالی کتب خانہ غالب لائبریری قائم کیا، جو اپنے قیمتی علمی ذخیرے کے ساتھ شہر میں ایک ادبی و تہذیبی مرکز کے طور پر مشہور ہوا اور وہ اس ادارے کے بانی سیکریٹری جنرل رہے۔
مرزا صاحب نے افسانہ نگاری سے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز کیا تھا، لیکن پھر یہ مشغلہ ترک کر دیا اور کئی برس بعد لکھنے کا سلسلہ شروع کیا تو قارئین کو ان کے دلنشیں اسلوب اور طرزِ نگارش نے اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ ان کی مشہور کتابوں میں ذکرِ یار چلے، پھر نظر میں پھول مہکے اور دکن اداس ہے یارو…ان کی یادداشتوں پر مبنی مجموعے ہیں۔ اس کے علاوہ عمرِ گذشتہ کی کتاب (مخدوم محی الدین اور فیض احمد فیض کے کلام کا تقابلی مطالعہ)، خون دل کی کشید (فیض کی شخصیت و فن)، یادِ یار مہرباں (زیڈ اے بخاری کی یادوں پر مشتمل)، وہ قربتیں وہ فاصلے (دکن کا سفرنامہ) اور محبت کی چھاؤں (افسانوں کا مجموعہ) بھی منظرِ عام پر آیا۔
انھیں کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔