اسلام آباد : قومی سلامتی مشیر معید یوسف کا کہنا ہے کہ معیشت پاکستان کا نمبرون مسئلہ ہےجو قومی سلامتی سےجڑا ہے، عالمی ادارے سےقرض لیتے ہیں تو قومی خود مختاری پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی امور خارجہ کا اجلاس ہوا، قومی سلامتی مشیر معید یوسف نے اجلاس کو قومی سلامتی پالیسی پر بریفنگ دی۔
قومی سلامتی مشیر معید یوسف نے کہا کہ افغانستان کے لیے انسانی بنیادوں پر امداد کا سلسلہ جاری ہے، پاکستان، امریکا، ترکی، قطر، ایران، جاپان اور دیگر ملک امداد دے رہے ہیں، بھارت نے گندم اور ادویات پاکستان کے راستے بجھوانے کا اعلان کیا تھا۔
معید یوسف کا کہنا تھا کہ ہم نے بھارت کو پاکستان کے راستے سپلائی کی اجازت بھی دی ، اجازت دینے کے باوجود بھارت نے تاحال گندم نہیں بجھوائی، بینکنگ نظام بحال ہونے تک افغانستان کی امداد ممکن نہیں، امریکا نے افغانستان کے 9ارب ڈالر کے زرمبادلہ ذخائر منجمد کر رکھے ہیں۔
قومی سلامتی مشیر نے کہا کہ قومی سلامتی پالیسی میں جنگ ہتھیاروں سےہٹ کر عام آدمی کا سوچا گیا ، معیشت پاکستان کا نمبرون مسئلہ ہےجو قومی سلامتی سےجڑا ہے، عالمی ادارے سےقرض لیتےہیں تو قومی خود مختاری پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی پالیسی کی توجہ جیو اکنامکس پر ہے ، جموں و کشمیر نئی پالیسی کا اہم جزو ہے ، گورننس کو ہم نے معاشی سلامتی پالیسی کا حصہ نہیں بنایا، جب تک عملدرآمد نہیں ہوگا قومی سلامتی پالیسی دستاویز رہے گی۔
معید یوسف نے کہا کہ قومی سلامتی پالیسی کا بنیادی نقطہ عام آدمی کا تحفظ ہے ، معاشی سیکیورٹی پر زیادہ فوکس ہے ،معاشی خود مختاری بہت اہم ہے ، جب آپ قرض لینگے تو اس کے اثرات خارجہ پالیسی پر پڑتے ہیں، پاکستان کےبیرونی قرضے ختم کرنا ضروری ہے۔
قومی سلامتی مشیر کا مزید کہنا تھا کہ جیو اکنامکس کا یہ ہر گز مطلب نہیں ہم جیو اسٹریٹیجک سے ہٹ گئے، تعلیم کو بھی قومی سلامتی پالیسی کا حصہ بنایا گیا ہے، شہریت کودوبارہ لازمی مضمون بنانے کے لیےسفارشات دی گئی ہیں جبکہ منظم جرائم، ہائبرڈوارکےموضوعات کو سلامتی پالیسی کا حصہ بنایا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فوڈ سیکیورٹی ملک کے لیے بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے، قومی سلامتی پالیسی کےخارجہ پالیسی حصے میں معاشی ترقی اورامن شامل ہے، قومی سلامتی پالیسی دستاویز میں کوئی خاص چیز نہیں چھپائی گئی،اقدامات پر عمل درآمد کا لائحہ عمل بھی پالیسی میں شامل ہے۔