جمعہ, مارچ 21, 2025
اشتہار

سلطان محمّد تغلق: برصغیر کی تاریخ کی ایک متنازع شخصیت

اشتہار

حیرت انگیز

سلطان محمّد تغلق کو تاریخ میں ایک متنازع حکم راں کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو بیک وقت اپنی شخصی خامیوں اور خوبیوں کی وجہ سے ناپسندیدہ اور مقبول رہے ہیں۔

اکثر محققین نے محمد تغلق کو ایک ذہین، عدل پرور اور علم دوست حکم راں کے طور پر متعارف کروایا ہے، مگر ان کے درمیان اختلافِ رائے بھی پایا جاتا ہے۔ سلطان کی شخصیت میں تضاد کی نشان دہی کرتے ہوئے مسلمان مؤرخین کے علاوہ غیرمسلم محققین نے بھی ان کے دورِ حکومت کے بعض اقدامات اور فیصلوں کو ان کی کوتاہ بینی سے تعبیر کیا ہے۔ آج سلطان تغلق کی برسی ہے۔

مشہور ہے کہ محمد تغلق دینی علم رکھنے کے ساتھ فلسفہ و منطق، ریاضی، فلکیات اور طب جیسے علوم میں گہری دل چسپی رکھتے تھے۔ منشی محمد ذکاء اللہ کی "تاریخ ہندوستان” میں سلطان محمد تغلق کے بارے میں لکھا ہے: "سلطان محمد تغلق، جو اپنی ذہانت اور علم دوستی میں مشہور تھے، انہوں نے مختلف علوم میں مہارت حاصل کی۔ وہ فلسفہ، منطق، ریاضی، فلکیات، اور طب میں گہری دل چسپی رکھتے تھے۔ ان کی یادداشت بہت تیز تھی اور وہ پیچیدہ مسائل کو آسانی سے حل کر لیتے تھے۔ وہ ایک تجربہ کار حکم راں تھے، لیکن ان کے بعض فیصلوں نے ان کی سلطنت کو نقصان پہنچایا۔”

دوسری طرف اسکاٹش محقق اور مؤرخ، جو برٹش انڈیا کے لیے اپنی خدمات انجام دے رہا تھا، اس نے اپنی تصنیف "ہسٹری آف انڈیا” میں لکھا ہے: "سلطان اپنی ذہانت اور قابلیت میں بے مثال تھے، لیکن ان کی طبیعت میں ایک خاص قسم کی ضد اور جنون تھا۔ ان کے فیصلے اکثر غیر متوقع اور بعض اوقات تباہ کن ہوتے تھے۔ انہوں نے دارالحکومت کو دہلی سے دولت آباد منتقل کرنے کا حکم دیا، جس سے لاکھوں لوگ بے گھر اور پریشان ہوئے۔ ان کا علامتی سکہ جاری کرنے کا تجربہ بھی ناکام رہا اور اس سے معاشی افراتفری پھیل گئی۔”

تخت نشینی کے بعد سلطان نے اپنی سلطنت کو مستحکم کرنے کے لیے کئی فوجی مہمات کے دوران دکن اور جنوبی ہندوستان کے کچھ حصوں کو فتح کیا۔ گجرات اور مالوا میں بغاوتوں کو کچل دیا، مگر ان کی خراسان، قراجل (ہماچل پردیش) اور دیگر چند چھوٹی ریاستوں میں مہم جوئی ناکام رہی۔ محققین نے ان کی ناکامیوں کی ایک بڑی وجہ دور رس پالیسیوں کا فقدان بتایا ہے۔ سلطان کی فتوحات سے سلطنت دہلی کا رقبہ عارضی طور پر وسیع ہوا، لیکن ان کی پالیسیوں کے منفی اثرات بھی مرتب ہوئے۔

تغلق، سلاطینِ دہلی کے معروف خاندان میں سے تھے جس خاندان کے تین حکم راں نام وَر ہوئے۔ ان میں‌ بانی حکم راں غیاث الدین تغلق شاہ، سلطان محمد بن تغلق شاہ اور سلطان فیروز شاہ تغلق شامل ہیں۔ لیکن سلاطینِ دہلی کی تاریخ میں محمد تغلق شاہ اپنی شخصی خامیوں اور خوبیوں کی وجہ سے متنازع رہے ہیں۔ انھیں سخت گیر منتظم اور ترقی پسند بادشاہ کہا جاتا ہے اور بعض مؤرخین کے نزدیک وہ بے رحم اور کوتاہ بیں تھے۔ تعجب خیز امر یہ ہے کہ محمد تغلق جن کے بارے میں لکھا جاتا ہے کہ وہ دین کا علم رکھتے تھے، لیکن دوسری طرف ان پر حکومت غیر شرعی سزاؤں اور بعض غیراسلامی احکامات کی وجہ سے بھی تنقید کی گئی ہے۔

یحییٰ بن احمد سرہندی سلطان محمد تغلق کی بادشاہت کے نتائج پر لکھتے ہیں: ’’اُمورِ سلطنت بالکل چوپٹ ہوگئے اور نظامِ مملکت مکمل طور پر درہم برہم ہو کر رہ گیا، جب ایک طرف سے مملکت میں رونما ہونے والے فتنوں کا سدِ باب کرنے پر توجہ دی جاتی تو دوسری طرف سے فتنوں کا دروازہ کھل جاتا۔ جب ایک طرف ملک میں امن و امان برقرار کرنے کا خیال اس (سلطان) کے دل میں آتا تو دوسری طرف کوئی زبردست خلل واقع ہوجاتا اور وہ (اپنی تدبیروں کے الٹا ہوجانے پر) حیران و پریشان ہو کر رہ جاتا۔ سلطنت کی بنیاد جو کہ گزشتہ بادشاہوں نے ڈالی تھی پوری طرح متزلزل ہوگئی۔ وہ جس کام کا تہیہ کر لیتا تھا (اس کے نتیجے میں) اختلالِ مملکت، نقصانِ دین، اپنی تشویش، ملک داری اور دست گاہِ شہریاری میں سے (اس کے پاس) کچھ بھی باقی نہ رہا۔‘‘

سلطان محمد بن تغلق کو ایک بہادر، جری حکم راں کے ساتھ ظالم بھی لکھا گیا ہے۔ وہ اپنے مخالفین کو معمولی خطا پر بھی درد ناک سزائیں دینے کے لیے مشہور تھے۔

سلطان محمد بن تغلق نے مملکتِ ہند اور چین کے درمیان حائل علاقہ قراچل فتح کرنے کے لیے 80 ہزار سواروں پر مشتمل لشکر ترتیب دیا۔ اس مہم کامقصد کیا تھا؟ مذکورہ اَمر میں مؤرخین میں خاصا اختلاف پایا جاتا ہے، کچھ کا خیال ہے کہ وہ چین فتح کرنا چاہتا تھا لیکن یہ بات حقائق کے منافی ہے۔ بعض کی رائے ہے کہ وہ قراچل علاقے کی عورتوں کو اپنے حرم میں دیکھنا چاہتا تھا لیکن یہ اَمر سلطان کے کردار کے تمام جائزوں کے برخلاف ہے۔ کچھ مؤرخین کا خیال ہے کہ وہ پہاڑی علاقے کے سرداروں کو اپنے اقتدارِ اعلیٰ کے زیرِ اثر لانا چاہتا تھا۔ یہ رائے معتبر ہے کیونکہ اشوکِ اعظم کے بعد وہ واحد حکم ران تھا کہ جو’’جنوبی ہند اور شمالی ہند ایک اکائی‘‘ کے نظریہ کا علم بردار تھا۔ یحییٰ بن احمد سرہندی کے مطابق ’’اس نے اپنے سواروں کو حکم دیا کہ وہاں سے جب وہ نشیبی علاقے میں آئیں تو واپسی کے راستے میں (سلسلۂ مواصلات برقرار رکھنے کے لیے) چوکیاں بنائیں تاکہ لوٹتے وقت دشواری نہ ہو۔ جب لشکر وہاں پہنچا تو حسبِ دستور چوکیاں قائم کی گئیں اور سارا لشکر سلسلۂ کوہِ قراچل میں داخل (بھی) ہو گیا لیکن رسد کی کمی اور راستے کی دشواری اِس پر غالب آئی۔ جو چوکیاں قائم ہوئیں تھیں اُن پر پہاڑی لوگوں نے قبضہ کرکے سب چوکیداروں کو قتل کر دیا۔ وہ لشکر جو کہ سلسلۂ کوہِ قراچل میں داخل ہوا تھا سارے کا سارا جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اکثر سردار گرفتار ہوگئے اور کافی عرصہ تک (وہاں) کے راجاؤں کی قید میں رہے۔‘‘

مہم جوئی کے اخراجات اور بے جا فیاضی کے سبب جب شاہی خزانہ خالی ہوگیا تو سلطان محمد بن تغلق نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے سونے کے سکّوں کی جگہ تانبے کے سکّے رائج کرنے کا حکم دیا۔ یہ فیصلہ بھی غلط ثابت ہوا اور اس کے اثرات نے سلطان کی ساکھ و سلطنت کو بہت نقصان پہنچایا۔ جعل ساز اور دھوکے بازوں نے شہروں اور قصبوں میں ٹکسال قائم کر کے دھڑا دھڑ تانبے کے سکّے بنائے اور ان کے عوض سونا، چاندی، گھوڑے، ہتھیار اور دیگر قیمتی اشیا خریدنا شروع کر دیں۔ ایسا کرنے کا منطقی نتیجہ کساد بازاری ہی تھا جس کے بعد سلطان کو ایک بار پھر شاہی فرمان جاری کرنا پڑا کہ لوگ تانبے کے سکّے شاہی خزانے میں جمع کروا کے سونے کے سکّے حاصل کریں۔ اس سے شاہی خزانے کا بھرکس نکل گیا۔

سلطان محمد بن تغلق نے دکن میں دَیو گری کا شہر آباد کیا جسے بعد ازاں دولت آباد کہا جانے لگا اور پھر اسے سلطنت کا نیا انتظامی شہر قرار دیا۔ اس کے بعد فرمان صادر کیا کہ دہلی اور مضافات کے تمام باشندوں کو کارواں در کارواں دولت آباد میں منتقل کیا جائے اور ان کے لیے مکانات خریدنے کے لیے شاہی خزانے سے پیسے دیے گئے۔ کہتے ہیں کہ اس اَمر سے دہلی شہر ایسا اجڑا کہ چند دنوں بعد یہاں سے بلّی اور کتّے کے بولنے کی آوازیں بھی سنائی نہ دیتی تھیں۔ ایسے میں اوباش لوگ دہلی میں داخل ہوگئے اور جو شہری یہاں رہ گئے تھے ان کو لوٹ لیا گیا لیکن دوسری جانب تمام اطرافی قصبات سے علماء اور مشائخ تک کو دولت آباد میں بسایا گیا۔ حالانکہ دہلی ایک سو ساٹھ سال سے سلطنت کا دارُالحکومت چلا آ رہا تھا۔ دہلی کی بربادی اور دولت آباد کی آبادی بھی سلطان کا غلط فیصلہ تھا۔

سلطان محمد تغلق 1290ء میں ملتان میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ بادشاہ غیاث الدّین تغلق کی اولاد تھے۔ 1351ء میں آج ہی کے دن سلطان ٹھٹھہ میں بیماری کے سبب انتقال کرگئے تھے۔ وفات کے بعد ان کے چچا زاد بھائی فیروز تغلق کو سلطنتِ دہلی کا نیا حاکم قبول کر لیا گیا۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں