مولانا عبد السلام نیازی اپنے وقت کے نابغۂ روزگار عالم، محقق، مدبر، مفکر اور بزرگ گزرے ہیں۔
مولانا سید ابو الاعلٰی مودودی، خواجہ حَسن نظامی، بابا غوث محمد یوسف شاہ تاجی اور جوش ملیح آبادی جیسی علمی مذہبی، و ادبی شخصیات نے ان سے استفادہ کیا۔ مولانا ابو الکلام آزاد، جواہر لعل نہرو، میر عثمان آف حیدر آباد دکن اور سر مسعود جیسے اکابر شرف یابی کے متمنی رہتے مگر کسی کو درخورِ اعتنا نہ گردانتے۔
دنیا جہاں کے علوم گھوٹ پی رکھے تھے۔ متروک، غیر متروک زبانوں کے عالمِ بے بدل، حکمت، دین، تصوف، فقہ، ریاضی، ہیئت، تقویم، تنویم، موسیقی، راگ داری، نجوم، علم الانسان، علم الاجسام، علم البیان، معقول و منقول، علم الانساب، عروض و معروض ایسا کون سا علم تھا جہاں وہ حرفِ آخر نہ تھے۔
سر اکبر حیدری نظام حیدر آباد کا کوئی پیغام لے کر مولانا سے ملاقات کی خاطر ان کے مکان کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے کہ مولانا کی پاٹ دار آواز آئی…. کون ہے؟
اکبر حیدری نے اپنا نام اور مقام بتایا۔ مولانا نے جواب دیا:
بس، آپ کی خدمت میں مولوی عبدالسلام کے کوٹھے کی یہ تین سیڑھیاں ہی لکھی تھیں۔ چوتھی سیڑھی پر قدم نہ رکھنا اور اپنے رئیس سے کہنا کہ اگر اس کی ساری دولت ایک پلڑے میں ترازو کے رکھ دی جائے اور دوسرے حصے میں ہمارے جسم کا کوئی رواں، تو ترازو کا یہ پلڑا زمین پر لٹکا رہے گا اور پہلا پلڑا معلق رہے گا۔
سر اکبر حیدری مایوس لوٹ گئے۔
(اک جلالی بزرگ از انتظار حُسین)