تازہ ترین

پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ کا اہم بیان

اسلام آباد : پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے...

ملازمین کے لئے خوشخبری: حکومت نے بڑی مشکل آسان کردی

اسلام آباد: حکومت نے اہم تعیناتیوں کی پالیسی میں...

ضمنی انتخابات میں فوج اور سول آرمڈ فورسز تعینات کرنے کی منظوری

اسلام آباد : ضمنی انتخابات میں فوج اور سول...

طویل مدتی قرض پروگرام : آئی ایم ایف نے پاکستان کی درخواست منظور کرلی

اسلام آباد: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے...

اردو اور تعلیمِ نسواں کے حامی، ریاضی کے ماہر شمسُ العلماء مولوی محمد ذکاءُ اللہ

انیسویں صدی میں اپنے علمی، ادبی مشاغل کے سبب نمایاں‌ اور تصنیف و تالیف کے میدان میں ممتاز ہونے والوں میں سے ایک شمسُ العلماء مولوی محمد ذکاءُ اللہ اردو زبان اور تعلیمِ نسواں کے زبردست حامی بھی تھے۔

ذکاءُ اللہ نے جس دور میں آنکھ کھولی اور سنِ شعور کو پہنچے، اس میں ہندوستانی معاشرے پر مغربی تہذیب اثرانداز ہو رہی تھی اور سماج میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں۔ نئی تہذیب و تعلیم کی بنیاد پڑ رہی تھی جس میں مولوی ذکاءُ اللہ اردو زبان کے زبردست حامی بن کر سامنے آئے اور علم و ادب کی خدمت کے لیے خود کو وقف کر دیا۔

اس نابغہ روزگار شخصیت سے متعلق ادبی تذکروں میں آیا ہے کہ ذکاءُ اللہ کا تعلق دہلی کے کوچہ بلاقی بیگم سے تھا اور انھوں نے علمی، ادبی اور دینی ماحول میں‌ پرورش پائی۔ 1832ء ان کا سنِ پیدائش ہے۔ ابتدائی تعلیم اپنے دادا حافظ محمد بقاءُ اللہ اور والد حافظ محمد ثناءُ اللہ سے حاصل کی۔ کم عمری ہی میں عربی و فارسی کتابیں پڑھنی شروع کر دی تھیں۔

دہلی کالج میں داخلہ لیا تو دل چسپی سائنس کی طرف زیادہ رہی اور ریاضی ان کا پسندیدہ مضمون۔ اس مضمون سے شغف اور اس میں مہارت ایسی بڑھی ہی کہ اردو زبان میں ریاضی کی پہلی کتاب لکھ ڈالی۔ وہ ریاضی کے استاد ماسٹر رام چندر کے چہیتے شاگرد بن گئے جب کہ دہلی کالج ہی میں ریاضی کے مضمون میں مدرس کی حیثیت عملی زندگی کا آغاز کردیا۔ اس کے بعد آگرہ، بلند شہر، مراد آباد اور الٰہ آباد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔

وہ دہلی کالج کے بعد آگرہ کالج میں فارسی اور اردو کے استاد بھی رہے۔ اور بعد میں
میور سنٹرل کالج میں عربی اور فارسی کے پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ الغرض اپنے دور میں ذکاءُ اللہ دہلوی ماہرِ تعلیم جانے گئے۔ علمی و ادبی مضامین، مقالے اور کئی کتابیں لکھیں اور آخری سانس تک پڑھنے لکھنے کا سلسلہ جاری رہا۔ انھیں برطانوی سرکار نے شمسُ العلما اور خان بہادر کا خطاب دیا۔ وہ تعلیمِ نسواں کے حامی تھے اور اس ضمن میں کاوشوں پر انھیں‌ سرکار نے خلعت سے نوازا۔

اردو زبان اور تصنیف و تالیف اور علم و فنون کی ترویج کے حوالے سے ہندوستان میں دہلی کالج کے قیام کے بعد بڑا کام ہوا اور مولوی ذکاءُ اللہ کی ریاضی اور طبیعیات کے مضمون پر اردو میں‌ درجنوں کتب شایع ہوئیں، انھیں نصاب میں شامل کیا گیا اور مولوی صاحب کو علمی خدمات پر انعامات سے نوازا گیا۔

مولوی ذکاءُ اللہ کا میدان یوں تو سائنس اور ریاضی تھا، لیکن انھوں نے اردو تاریخ نگاری کی بھی بنیاد ڈالی اور کئی جلدوں پر مشتمل تاریخِ ہندوستان لکھی۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد کی تاریخ انھوں نے سلطنت انگلیشیہ کے نام سے لکھی۔ مولوی ذکاءُ اللہ کی ڈیڑھ سو سے زائد کتابوں کی اشاعت اور بہت سے دل چسپ اور مفید مضامین بھی قارئین میں‌ پسند کیے گئے۔ وہ نکتہ بیں‌ اور مصلح تھے جنھوں اپنے موضوعات کو دوسروں کے لیے افادی اور کارآمد بنایا۔

7 نومبر 1910ء کو علم و فنون کے شیدائی، ماہرِ‌ تعلیم اور مصنّف مولوی ذکاءُ اللہ نے دہلی میں‌ اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔

Comments

- Advertisement -