آج جدید مشینوں، سائنسی آلات اور ٹیکنالوجی کی بدولت ایجاد و دریافت کا سلسلہ پہلے کی نسبت سہل ہوگیا ہے۔ اگرچہ ہزاروں سال پرانے کھنڈرات یا آثار سے ملنے والی مختلف اشیاء اور سامانِ زندگی کی بنیاد پر کسی قدیم دور اور اس وقت کی آبادیوں سے متعلق قیاس آرائی یا حقائق تک پہنچنا تو ممکن ہے، مگر بہت سے قصّے اور داستانیں ایسی ہیں جن پر یقین کرنا مشکل ہے۔ سندھ میں موہن جو دڑو کے آثار کے بارے میں تو آپ سب ہی جانتے ہیں، لیکن شاید بہت سے لوگوں کے لیے مومل جی ماڑی کا نام نیا ہو جو اس دور کا ایک عجیب و غریب محل تھا۔ اس محل سے ایک عشقیہ داستان بھی منسوب ہے جس کے کردار رانو اور مومل ہیں۔
مومل جی ماڑی کے قدیم آثار سندھ کے مشہور قصبے گھوٹکی سے 11 کلومیٹر مشرق کی طرف جروار روڈ پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ 15 ایکڑ رقبے پر پھیلی ہوئی یہ ماڑی پہاڑی تودوں پر مشتمل ہے۔ ان تودوں کے 12 ایکڑ رقبے پر کچی پکی اینٹوں کے مکانات اور جھگیوں پر مشتمل گاؤں ہے جب کہ جنوب مغربی سمت میں بقیہ 3 ایکڑ رقبہ غیر آباد ہے۔ اس غیر آباد حصے سے متعلق مقامی لوگوں میں کئی دیو مالائی قصے اور ایسی کہانیاں مشہور ہیں جو سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہیں۔ ماڑی کی بات کی جائے تو یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ یہاں کسی دور میں مومل کا محل واقع تھا۔ محل کو سندھی زبان میں ’’ماڑی ‘‘ کہا جاتا ہے، اس لیے یہ مومل کی ماڑی کہلاتا ہے۔
محققین کا خیال ہے کہ مومل نام کا یہ قلعہ نما محل 590ء میں راجہ رائے سہاسی ثانی کے دور حکومت میں تعمیر ہوا تھا۔ راجہ رائے سہاسی کو تعمیراتی کاموں سے بہت دل چسپی تھی اور اس نے چکنی مٹی سے مومل جی ماڑی کے علاوہ چھ دوسرے محل تعمیر کرائے تھے، جن کے نام اچھ، ماتھیلا، سیورائی، ماڈ، الور اور سیوستان ہیں۔ مومل جی ماڑی کے کھنڈرات اس پہاڑ ی ٹیلے پر ایک عظیم الشان قلعے کی موجودگی کا پتہ دیتے ہیں۔ اس کے کھنڈرات سے اکثر زیورات اور ظروف و استعمال کی دیگر اشیاء ملتی رہتی ہیں، جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کسی زمانے میں یہاں ہم جیسے انسان بستے تھے اور محل یا قلعہ میں بھی کبھی رونق لگی رہی ہو گی۔ سندھ کی مستند تاریخ پر مبنی کتاب تاریخِ معصومی میں اس قلعے کا ذکر ’’ماتھیلہ‘‘ کے نام سے کیا گیا ہے۔ اسی مناسبت سے ایک قصبہ میرپور ماتھیلو بھی آباد ہے۔
مومل جی ماڑی کے آثار کے علاوہ یہاں کی لوک داستان مومل رانو بھی بہت مشہور ہے۔ اس کا تذکرہ آگے آئے گا۔ اگر تاریخ معصومی پر نظر ڈالیں تو اس کے مطابق مسلمان مجاہد محمد بن قاسم ثقفی نے 711ء کے قریب اس علاقے پر قبضہ کیا تھا اور اس وقت کا ہندو راجہ داہر محمد بن قاسم سے مقابلہ کرتے ہوئے مارا گیا تھا۔
سندھ میں مومل جی ماڑی سے منسوب داستان کچھ اس طرح ہے کہ امر کوٹ کا راجہ ہمیر سومرو، اپنے خاص مصاحب کے ساتھ دور افتادہ جنگلات میں شکار کھیلا کرتا تھا اور ایک دن اسی طرح شکار کھیلنے میں مصروف تھا کہ اچانک ایک شخص سامنے آگیا، جو انتہائی پریشان حال لگ رہا تھا۔ ان لوگوں نے اس کو کھانا کھلایا اور شکار کے دوران وہ ان کے ساتھ رہا لیکن وہ اس وقت تک ان شکاریوں کی حقیقت نہیں جانتا تھا۔ اس شخص کا نام رانو میندھرو تھا جو نوجوان راجہ ہمیر سومرو کو بہت پسند آیا جس نے بعد میں اسے اپنے خاص مصاحبین میں شامل کرلیا۔ رانو نے بتایا کہ وہ کشمیر کے قریب واقع ایک ریاست کا شہزادہ ہے اور وہ یہاں مومل نامی حسینہ کی شہرت سن کر اس سے شادی کرنے آیا ہے۔ دل چسپ اتفاق یہ کہ خود راجہ ہمیر بھی شہزادی سے شادی کا امیدوار رہ چکا تھا لیکن شہزادی مومل کی کچھ شرائط تھیں جن کو راجہ ہمیر پوری کرنے میں ناکام رہا تھا۔ اس نے نوجوان رانو کو یہ نہیں بتایا بلکہ اسے یقین دلایا کہ وہ مومل تک پہنچنے میں اس کو مدد دیں گے۔ مومل نامی دوشیزہ امر کوٹ کے شمال مشرق میں ’’لودھروا‘‘ نامی قصبے میں ایک پراسرار محل میں اپنی سات بہنوں کے ہم راہ رہتی تھی۔ اس محل کا نام ’’کک محل‘‘ تھا۔ بعض روایات کے مطابق مومل گوجر قوم کے راجہ نند کی بیٹی تھی، جو لودھروا کے علاقے کا حاکم تھا۔ شہزادی مومل کا یہ محل نہایت عجیب و غریب اور پراسرار اس لیے تھا کہ محل کے دروازے پر دونوں اطراف شیروں کے مجسمے تھے جو اس مہارت سے بنائے گئے تھے کہ اصلی نظر آتے تھے۔ ان کے آگے ایک دریا موجزن تھا، جسے پار کرنا ناممکن نظر آتا تھا لیکن یہ بھی حقیقی دریا نہیں تھا اور اس دور کے ہنرمندوں کی مہارت کا شاہکار تھا۔ محل کے اندر داخل ہونے پر صحن میں سات انتہائی دیدہ زیب اور نفیس پلنگ رکھے نظر آتے جن پر قیمتی کپڑے کی چادریں بچھی ہوئی تھیں۔ ساتوں پلنگ ایک جیسے نظر آتے تھے اور ان میں ذرا سا بھی فرق بظاہر آنکھ سے محسوس نہیں ہوتا تھا، لیکن ان میں سے چھ پلنگ کچے سوت سے بُنے ہوئے تھے اور ان کے نیچے گہرے گڑھے کھودے گئے تھے جب کہ ایک پلنگ مضبوط نیواڑ سے بنایا گیا تھا۔ ان چھ پلنگوں پر جیسے ہی کوئی شخص بیٹھتا پلنگ اس کے بوجھ سے ٹوٹ جاتا تھا اور اس پر بیٹھنے والا شخص گڑھے میں گر جاتا۔ بس نیواڑ والا پلنگ ایسا تھا جس کو اگر کوئی پہچان کر بیٹھ جاتا تو وہ محفوظ رہتا۔ یہی وہ پلنگ تھا جس پر مومل اکثر بیٹھا کرتی تھی۔
مومل شہزادی کے حسن و جمال کی وجہ سے شہزادوں اور امراء کے بیٹوں کے رشتے آنے لگے تھے اور شادی کرنا جیسے آسان نہیں رہا تھا۔ وہ ایک ذہین اور پراعتماد مرد سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ اس نے منادی کروا دی کہ جو شخص میری تمام شرائط پوری کرنے کے بعد میرے محل میں داخل ہو کر یہاں رکھے ہوئے اصل پلنگ پر آکر بیٹھ جائے گا تو میں اس سے شادی کر لوں گی۔ کئی حکم رانوں اور شہزادوں اور امراء نے قسمت آزمائی کی لیکن اکثریت کو محل کے قریب آنے کے بعد خوف محسوس ہونے لگا۔ وہ اس دریا اور شیروں کی حقیقت کو سمجھنے میں ناکام رہے اور ڈر کر نامراد لوٹ گئے۔ چند بہادر ان تمام آزمائشوں سے گزر کر محل کے اندر داخل ہونے میں تو کام یاب رہے لیکن کچے سُوت سے بنے ہوئے پلنگوں پر بیٹھ گئے اور ان کے نیچے بنائے ہوئے گہرے گڑھوں میں جا گرے۔ وہاں سے انھیں نکال کر واپس بھیج دیا گیا۔ امر کوٹ کا راجہ ہمیر سومرو بھی قسمت آزمائی کے لیے گیا، لیکن دریا کی موجیں اور دھاڑتے ہوئے شیروں کو دیکھ کر وہاں سے لوٹ آیا۔
آخر وہ کشمیری شہزادہ رانو میندھرو راجہ ہمیر اور اس کے ساتھیوں کی راہ نمائی میں اپنا مقدر آزمانے کے لیے محل تک پہنچ گیا۔ وہ ذہین بھی تھا اور بہادر بھی۔ اس نے محل کے سامنے بپھری ہوئی لہروں میں اپنا نیزہ مارا تو جان لیا کہ یہ اصلی دریا نہیں ہے۔ دوسری طرف شیر دکھائی دے رہے تھے۔ رانو دریا کو پار کر کے شیروں کے قریب پہنچا لیکن ان کی جانب سے کوئی نقل و حرکت نہ پا کر وہ نہایت اطمینان کے ساتھ محل میں داخل ہوگیا۔ وہاں اسے ایک ہی جیسےسات پلنگ نظر آئے۔ اس نے ہر پلنگ پر بیٹھنے سے پہلے اپنا نیزہ مار کر انہیں جانچا اور اس طرح وہ اصل پلنگ پر جا کر بیٹھ گیا۔ شہزادی کو خبر دی گئی تو اس نے رانو کو اپنے حضور طلب کیا اور رانو کی وجاہت نے اسے متاثر کیا۔ مومل نے وعدے کے مطابق اس سے بیاہ کر لیا۔
راجہ ہمیر سومرو کو شہزادہ رانو اور مومل کی شادی کی خبر پہنچی تو وہ رقابت کی آگ میں جلنے لگا۔ رانو جب واپس امر کوٹ آیا تو راجہ ہمیر سومرو نے اسے کہا کہ وہ آئندہ ملنے نہ جائے اور اس پر پہرے دار لگا دیے۔ ایک روز وہ اپنے کمرے میں آیا اور جب اندھیرا گہرا ہوگیا تو کسی طرح نظر بچا کر اپنے تیز رفتار اونٹ پر بیٹھ کر لودھروا کی جانب روانہ ہوا۔ وہاں ساری رات وہ کک محل میں مومل کے ساتھ رہا اور پھر امر کوٹ واپس آگیا۔ کسی کو خبر تک نہ ہوسکی۔ وہ دن کو راجہ ہمیر کے دربار میں امور سلطنت نمٹایا کرتا تھا۔ ایک روز راجہ کے جاسوسوں نے اسے لودھروا کی جانب جاتے ہوئے دیکھ لیا۔ راجہ ہمیر کو اطلاع دی گئی اور جب رانو، مومل سے مل کر واپس آیا تو اسے گرفتار کر کے نظر بند کردیا گیا۔ لیکن چند روز بعد راجہ کو رانو کے ساتھ اپنی دوستی یاد آئی اور اس نے رانو کی رہائی کا حکم دیتے ہوئے رانو سے وعدہ لیا کہ وہ آئندہ مومل سے ملاقات کے لیے نہیں جائے گا۔ رانو اس وعدہ پر زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکا اور یہ سلسلہ پھر کسی طرح شروع ہوگیا۔
ایک مرتبہ رانو معینہ وقت پر شہزادی مومل سے ملنے کے لیے کک محل نہیں پہنچا تو مومل اس کے فراق میں تڑپنے لگی اور اپنے دل کو تسلی دینے کی خاطر اپنی بہن سومل کو مردانہ لباس پہنا کر اپنے پاس رانو کی جگہ لٹا لیا۔ رات کو کسی پہر رانو وہاں پہنچ گیا، اور دیکھا کہ مومل کے ساتھ کوئی اجنبی شخص سو رہا ہے۔ اندھیرے میں اسے سومل کا چہرہ نظر نہیں آیا اور وہ بدگمان ہوکر وہاں سے چلا گیا لیکن جاتے وقت اپنی چھڑی مومل کے سرہانے چھوڑ گیا۔ صبح جب مومل نیند سے بیدار ہوئی تو اس نے اپنے سرہانے رانو کی چھڑی رکھی ہوئی دیکھی، وہ سمجھ گئی کہ رانو اس سے ملنے آیا تھا لیکن سومل کو اس کے ساتھ محو خواب دیکھ کر بدگمانی میں مبتلا ہو کر چلا گیا ہے، اور اس کا اظہار کرنے کے لیے اپنی چھڑی چھوڑ گیا ہے۔ پھر وہ کئی روز تک اس کا انتظار کرتی رہی اور مجبور ہو کر مومل نے مردانہ بھیس بدلا اور ایک اونٹ پر سوار ہوکر امر کو ٹ پہنچ گئی۔ وہاں ایک سرائے میں ٹھہر کر وہ کئی دنوں تک رانو کو تلاش کرتی رہی۔ ایک جگہ وہ اسے نظر آگیا، مومل نے اسے آواز دی، مسلسل گریہ زاری کی وجہ سے مومل کی آواز خاصی بھرّائی ہوئی تھی، رانو اس کی آواز نہیں پہچان سکا لیکن وہ اسے کوئی اجنبی مرد سمجھ کر اس کے قریب آیا۔ قریب آنے پر جب مومل نے اسے اپنا چہرہ دکھایا تو وہ نفرت سے منہ موڑ کر واپس جانے لگا۔ رانو اس کے قدموں سے لپٹ گئی اور اسے یقین دلانے کی کوشش کی کہ جو کچھ اس نے کک محل میں دیکھا وہ محض اس کی غلط فہمی تھی، اس کے ساتھ اس کی بہن سومل سو رہی تھی۔
مومل نے رانو سے اپنی اس غلطی کی معافی بھی مانگی لیکن رانو، مومل سے اس حد تک بدگمان ہوچکا تھا کہ مومل کی رانو کو منانے کی ہر کوشش رائیگاں گئی۔ تب مومل نے دل برداشتہ ہو کر قریب ہی آگ کے جلتے ہوئے الاؤ میں چھلانگ لگا دی اور خود کشی کر لی۔ مومل کے مرنے کے بعد رانو کو اس کی محبت کی سچائی کا یقین آیا تو اس نے بھی اسی الاؤ میں کود کر اپنی جان دے دی۔ یوں تاریخ کے صفحات میں مومل اور رانو کی محبت کی داستان ہمیشہ کے لیے امر ہوگئی۔
محققین کے مطابق پہاڑی ٹیلوں پر واقع اس محل کا نام مومل رانو کے مرنے کے بعد ’’مومل رانو کی ماڑی‘‘ پڑ گیا تھا جب کہ آج اسے صرف مومل کی ماڑی کہا جاتا ہے۔ اب بھی ملک اور بیرونِ ملک سے آنے والے سیاح ادھر کا رخ کرتے ہیں اور اس محل کے کھنڈرات دیکھنے کے ساتھ یہاں کے لوگوں سے رانو اور مومل کی داستان سننا پسند کرتے ہیں۔