جمعہ, دسمبر 27, 2024
اشتہار

اسٹیٹ بینک کی زری پالیسی، شرح سود 15 فیصد برقرار رکھنے کا فیصلہ

اشتہار

حیرت انگیز

کراچی : مرکزی بینک کی زری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی)نے پالیسی ریٹ کو 15فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیاہے، سیلاب سے معاشی منظرنامہ تبدیل ہوگیا ہے اور اس کے اثرات کا مکمل جائزہ لینے کا عمل جاری ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) سے پیر کو جاری اعلامیہ کے مطابق زری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی)نے اپنے اجلاس میں پالیسی ریٹ کو 15فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیاہے۔ ایم پی سی نے نوٹ کیا کہ گذشتہ اجلاس کے بعد معاشی سرگرمی میں سست روی آتی رہی نیز عمومی مہنگائی اور جاری کھاتے کے خسارے میں کمی آئی۔

ایم پی سی نے یہ بھی نوٹ کیا کہ حالیہ سیلاب سے معاشی منظرنامہ تبدیل ہوگیا ہے اور اس کے اثرات کا مکمل جائزہ لینے کا عمل جاری ہے۔ فی الوقت دستیاب معلومات کے مطابق ایم پی سی کا نقطہ نظر یہ تھا کہ موجودہ زری موقف سیلاب کے بعد مہنگائی سے نمٹنے اور نمو کو برقرار رکھنے کے درمیان مناسب توازن قائم رکھتاہے۔ ایک طرف ، غذائی قیمتوں کو پہنچنے والے رسدی دھچکے کی وجہ سے مہنگائی زیادہ بلند اور زیادہ عرصے تک رہ سکتی ہے اور اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ یہ اضافی تحریک معیشت میں دیگر اشیا کی قیمتوں تک نہ پھیل جائے۔

- Advertisement -

دوسری جانب نمو کے امکانات کمزور ہوئے ہیں جس سے طلبی دبائو کم ہونا چاہیے اور مضمرمہنگائی میں کمی آنی چاہیے۔ ان پریشان کن حالات کی روشنی میں ایم پی سی نے یہ فیصلہ کیا کہ زری پالیسی کی سیٹنگز کو اس مرحلے پر تبدیل نہ کیا جائے۔ پچھلے اجلاس کے بعد ایم پی سی نے کئی اہم پیش رفتیں نوٹ کیں۔ اول،معاشی سرگرمیوں میں مطلوبہ اعتدال زیادہ نمایاں اور راسخ ہوگیا ہے جس سے اس امر کا اشارہ ملتا ہے کہ گذشتہ برس کے دوران سختی کے جن اقدامات پر عمل کیا گیا تھا ان کے نتائج برآمد ہورہے ہیں۔

چونکہ سیلاب کے بعد نمو کے مزید سست ہونے کا امکان ہے اس لیے آگے چل کر اس سختی میں بہت احتیاط سے ردوبدل کرنا ہوگا۔ دوم، عمومی مہنگائی دیہی اور شہری علاقوں دونوں میں اگست کے دوران نقطہ عروج پر پہنچنے کے بعد پچھلے ماہ کم ہوگئی ۔سوم، بالترتیب اگست اور ستمبر میں جاری کھاتے کے خسارے اور تجارتی خسارے میں کافی کمی آئی اور روپیہ قدر میں حالیہ کمی کے بعد کسی قدر بحال ہوا۔

چہارم، آئی ایم ایف کے جاری پروگرام کا ساتواں اور آٹھواں مشترکہ جائزہ 29 اگست کو کامیابی سے پایہ تکمیل کو پہنچا جس کے نتیجے میں 1.2ارب ڈالر کی قسط جاری ہوئی۔ زری پالیسی کمیٹی نے سیلاب کے بعد کے معاشی منظرنامے پر بحث کی اور یہ نوٹ کیا کہ اس حوالے سے پیش گوئیاں ابھی تک ابتدائی نوعیت کی ہیں اور حکومت کی جانب سے سیلاب کے نقصانات کا جو جائزہ لیا جارہا ہے اس کی تکمیل کے بعد بہتر قیاس کے ساتھ پیش گوئیاں کی جاسکیں گی۔

موجودہ دستیاب معلومات کے مطابق مالی سال 23 میں جی ڈی پی نمو گر کر لگ بھگ 2 فیصد ہوجائے گی جبکہ سیلاب سے پہلے 3-4 فیصد کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ ا س دوران مالی سال 23 میں بلند غذائی قیمتیں اوسط عمومی مہنگائی کو سیلاب سے قبل کی پیش گوئی 18-20فیصد سے کسی حد تک بڑھا سکتی ہیں۔ جاری کھاتے کے خسارے پر کم اثرات پڑنے کا امکان ہے اور غذائی اشیا اور کپاس کی بلند درآمدات اور پست ٹیکسٹائل برآمدات کے دبائوکی تلافی زیادہ تر سست ملکی طلب اور اجناس کی کم عالمی قیمتوں سے ہوسکتی ہے۔

نتیجے کے طور پر جاری کھاتے کے خسارے میں بگاڑ کے قابو میں رہنے کی توقع ہے تاہم یہ بگاڑ پچھلی پیش گوئی یعنی جی ڈی پی کے 3 فیصد کے آس پاس رہے گا۔ حقیقی شعبہ میں زری پالیسی کمیٹی کے گذشتہ اجلاس کے بعد سے معیشت کی رفتار خاصی سست ہوچکی ہے۔طلب کے بیشتر اظہاریے جولائی اور اگست کے دوران گذشتہ برس کی اسی مدت کے مقابلے میں کم رہے، جن میں سیمنٹ، پیٹرولیم مصنوعات اور گاڑیوں کی فروخت شامل ہیں۔ رسد کے لحاظ سے اگست میں مسلسل تیسرے مہینے بجلی کی پیداوار میں کمی دیکھی گئی اور یہ12.6فیصد (سال بسال) تک کم ہوئی۔

جولائی کے دوران ایل ایس ایم میں1.4فیصد (سال بسال)کمی آئی اور اس میں گذشتہ دو برسوں میں پہلی بار سکڑا ہوا ہے ، جس کا اہم سبب مقامی نوعیت کے شعبوں میں وسیع البنیاد بگاڑ تھا۔ آگے چل کر امکان ہے کہ حالیہ سیلاب کے اس سال کی کپاس اور چاول کے ساتھ ساتھ گلہ بانی کے شعبے کی پیداوار پرمنفی اثرات مرتب ہوں گے۔بیرونی شعبہ میں جاری کھاتے کا خسارہ اگست میں مسلسل دوسرے مہینے کمی کے بعد صرف 0.7ارب ڈالر رہ گیا اور یہ جولائی کی سطح کے مقابلے میں تقریبانصف ہے۔

پاکستان دفتر شماریات کے ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ تجارتی خسارہ ستمبر میں تیزی سے سکڑ گیا اور یہ 19.7فیصد (ماہ بہ ماہ)اور 30.6فیصد (سال بسال)کمی کے بعد 2.9ارب ڈالر پر آ گیاجو مستحکم برآمدات کے ساتھ توانائی اور غیر توانائی اجزا کی درآمدات میں کمی کا عکاس ہے۔ مالی سال23 کی پہلی سہ ماہی میں درآمدات 12.7فیصد (سال بسال)کمی کے ساتھ18.7ارب ڈالر پر آگئیں جبکہ برآمدات 1.8فیصد (سال بسال)اضافے کے ساتھ بڑھ کر 7ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔آگے چل کر امکان ہے کہ سیلاب کے نتیجے میں کچھ زرعی اجزا کی بھاری مقدار میں درآمدات کی ضرورت پڑسکتی ہے جیسے کپاس اور چند تلف پذیر غذائی اشیا ۔ اس کے ساتھ چاول اور ٹیکسٹائل کی برآمدات پرمنفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے۔

تاہم ان مضر اثرات کی بڑی حد تک تلافی کم ملکی نمو اور اجناس کی گرتی ہوئی عالمی قیمتوں اور شپنگ کی لاگت میں کمی کے سبب درآمدی بل میں کمی سے ہو سکتی ہے۔ مزید برآں، جیسا کہ پاکستان کو پچھلی قدرتی آفات کے بعد تجربہ ہو چکا ہے، اسے مدنظر رکھتے ہوئے جاری کھاتے پر اثرات کو جاری منتقلیوں کی شکل میں بین الاقوامی امداد سے مزید تقویت مل سکتی ہے۔ حاصل شدہ بیرونی فنانسنگ اور سیلاب کے تناظر میں اضافی امداد کے وعدوں کے پیش نظر زرمبادلہ کے ذخائر میں سال کے دوران بہتری آنی چاہیے۔ مالیاتی شعبہ میں جولائی میں مالیاتی نتائج گذشتہ برس کی اسی مدت کے مقابلے میں بہتر تھے۔

مالیاتی خسارہ کم ہو کر جی ڈی پی کا 0.3فیصد رہ گیا جبکہ بنیادی توازن میں جی ڈی پی کا 0.2فیصد فاضل درج کیا گیا۔ اس بہتری کی وجہ خاصی حد تک ایف بی آر کے بلند ٹیکس محاصل کے ساتھ ساتھ سرکاری اخراجات میں کمی تھی۔ پہلی سہ ماہی کے دوران ایف بی آر کی ٹیکس وصولی بڑھ کر 1.625ٹریلین روپے ہوگئی جو ہدف سے 27ارب روپے متجاوز تھی۔ اگرچہ رواں سال سیلاب کی وجہ سے طے کردہ مالی استحکام کا حصول مشکل ہو سکتا ہے، تاہم حکومت اب تک بجٹ کے فنڈز کو دوبارہ مختص کرنے اور دوبارہ حصول کے ذریعے فوری اخراجات کی ضروریات کو پورا کرنے میں کامیاب رہی ہے۔

مستقبل میں گرانٹس سمیت آنے والی اضافی رقوم سے کسی بھی قسم کے مالیاتی ضیاع کی تلافی کرنے میں مدد ملنی چاہیے۔ اس سال کے بعد، وسط مدت کے دوران تعمیرِ نو اور بحالی کے لیے بین الاقوامی برادری کی مدد سے اضافی اخراجات کی ضرورت ہوگی۔ زری اور مہنگائی کا منظرنامہ کے تحت سست معاشی سرگرمیوں کے باعث نجی شعبے کے قرضوں میں 0.7ارب روپے کی خالص واپسی دیکھی گئی، جبکہ گذشتہ برس کے اسی عرصے میں 62.6ارب روپے کا اضافہ ہوا تھا۔

قرضوں کی یہ واپسی بنیادی طور پر جاری سرمائے کے قرضوں کی واپسی اور صارفی مالکاری میں بڑی کمی کو ظاہر کرتی ہے۔عمومی مہنگائی اگست میں بلند ترین سطح پر پہنچنے کے بعد ستمبر میں 4 فیصدی پوائنٹس سے زیادہ کم کر 23.2فیصد (سال بسال)رہ گئی، جس کی وجہ انتظامی اقدام کے سبب بجلی کی قیمتوں میں کمی تھی۔ اسی موقع پر مہنگائی کی رفتار توقع سے زیادہ سست رہی اور وہ 1.2 فیصد (ماہ بہ ماہ)کم ہوئی۔ دوسری طرف قوزی اور غذائی مہنگائی دونوں میں مزید اضافہ ہوا۔

آگے چل کر سیلاب کی بنا پر غذائی قیمتوں کو رسدی دھچکے لگنے سے آئندہ مہینوں میں عمومی مہنگائی پر اضافی دبا پڑ نے کی توقع ہے۔ تاہم بقیہ مالی سال، بالخصوص دوسری ششماہی میں عمومی مہنگائی کے تخمینے میں اب بھی بتدریج کمی نظر آتی ہے۔ اس کے بعد مالی سال 24 کے آخر تک اسے وسط مدتی ہدف کے تحت اسے 5تا 7فیصد کی اوپری حد کے آس پاس رہنا چاہیے۔

آگے چل کر دانشمندانہ زری پالیسی اور روپے کی قدر میں باقاعدہ ردو بدل کا تسلسل قوزی مہنگائی کو قابو میں رکھنے کا سبب ہونا چاہیے۔ ساتھ ہی انتظامی اقدامات کے ذریعے رسدی زنجیر کی رکاوٹیں دور کرنا اور ضروری درآمدات کرکے غذائی مہنگائی پر قابو پانا بلند ترجیح ہونی چاہیے۔ زری پالیسی کمیٹی مہنگائی، مالی استحکام اور نمو کے وسط مدتی اقدامات پر اثرانداز ہونے والے حالات کا بغور جائزہ لیتی رہے گی

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں