اسلام آباد : چیف جسٹس نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں چیئر مین اومنی گروپ کو فوری طلب کرلیا اور ایف آئی اے سے 29 اکاونٹس کی فہرست مانگ لی۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جعلی اکاؤنٹس سے منی لانڈنگ کیس کی سماعت ہوئی، آصف زرداری،فریال تالپور کے وکیل فاروق ایچ نائیک عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اومنی گروپ کے اکاؤنٹس کو جعلی کیسے کہہ سکتے ہیں؟ جعلی اکاؤنٹس سے رقم کہاں گئی؟
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ جعلی اکاؤنٹس سے رقم واپس اپنے اکاونٹ میں لانے کا مقصد کیا ہے، جس پر ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ اکاؤنٹس میں رقم جمع کرانے والے اصل لوگ ہیں، رقم جن اکاؤنٹس میں جمع ہوئی وہ اکاؤنٹس جعلی ہیں۔
چیف جسٹس نے چیئر مین اومنی گروپ کو فوری طلب کرتے ہوئے ایف آئی اے کو حکم دیا کہ لسٹ دیں کہ29 اکاؤنٹس کس کس کے نام پر ہیں؟
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کچھ لوگ کہتےہیں یہ اکاؤنٹس انہوں نے کھولے ہی نہیں، لگتا ہے کہ جعلی اکاؤنٹس کھول کر کالا دھن جمع کرایا گیا، دیکھنا یہ ہے کہ کالے دھن کو سفید کرنےکا بینفیشری کون ہے؟
ڈی جی ایف آئی اے نےمنی لانڈرنگ کی تحقیقات کیلئےجےآئی ٹی بنانےکی تجویز دے دی، چیف جسٹس نے استفسار کیاویسی ہی جے آئی ٹی بنانی ہے، جو نوازشریف کےلئےبنائی تھی۔
ہمارے بارے میں منی لانڈرنگ کا تاثر دیاجارہا ہے، وکیل فاروق ایچ نائیک
دوران سماعت آصف زرداری اور فریال تالپورکے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل میں کہا مجھے15منٹ دیں میں ساری صورتحال واضح کروں گا، پھر عدالت جو حکم دے گی قبول کریں گے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہمارے بارے میں منی لانڈرنگ کا تاثر دیاجارہا ہے ، بیرون ممالک میں ایسے تاثر بھی منفی اثرات پیدا کررہے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ تاثر چھوڑیں قانون کی بات کریں ،تاثر پاکستان کے روزانہ بدلتے رہتے ہیں۔
وکیل فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ میں قانون کی بات کروں گا ،کیس 2003 سے تحقیقات میں ہے، سپریم کورٹ کا حکم ہے کہ اس میں کوئی مداخلت نہیں کرے گا، سوال یہ ہے کہ رقم کتنی ٹرانسفر ہوئی ،کیا کوئی جرم ہوا ہے یا نہیں۔
فاروق ایچ نائیک نے مزید کہا کہ ایف آئی اے نے 25جولائی کو طلب کیا اورمفرور ملزم قرار دیا، وہ مفرور ملزم کیسے ہوسکتے ہیں،یہ پری پول ریگنگ تھی، جس پر جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ کیا ہم اس پر تحقیقات روک دیں۔
وکیل آصف زرداری اور فریال تالپور نے کہا بالکل نہیں تحقیقات میں کوئی مداخلت نہیں کرسکتا، دیکھنا ہوگا کہ اس پیسے کی منی لانڈرنگ ہوئی یا نہیں ، میرے موکل نہیں چاہتے کہ انکوئری روکی جائے مگر روزانہ بلاکرجرم قبول کرنے کیلئے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔
نجی بینک ملازمہ کو ہراساں کئے جانے پر چیف جسٹس نے شدید برہم
منی لانڈرنگ کیس میں نجی بینک ملازمہ کو ہراساں کئے جانے پر چیف جسٹس نے شدید برہمی کا اظہار کیا اور آئی جی سندھ کو آدھا گھنٹے میں پیش ہونے کا حکم دیا جبکہ سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کو بھی طلب کرلیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ایڈیشنل آئی جی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا پولیس کا کیس سے کیا تعلق ہے، کس کے کہنے پر ہراساں کیا، جس پر ایڈیشنل آئی جی نے کہا کہ معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں، بدنیتی ثابت ہوئی تھی سزا دیں گے۔
جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ سزا آپ نہیں ہم دیں گے، عملے کیساتھ آپ اور آپ کا آئی جی بھی نتائج بھگتیں گے۔
چیف جسٹس نے ایڈیشنل آئی جی سے سوال کیا آپ کاتعلق کہاں سے ہے؟ ایڈیشنل آئی جی نے جواب دیا کہ میرا تعلق شکار پور سے ہے۔
جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس میں کہا کہ اچھا،اس لئے خاتون کو ہراساں کیا جارہا ہے ،اب میں دیکھتا ہوں آپ نوکری پر کیسے رہتے ہیں، آپ حکومت پاکستان کے ملازم ہیں یا بااثر افراد کے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایڈیشنل آئی جی اورتمام عملے کے خلاف کارروائی ہوگی، ڈائریکٹر ایف آئی اے خاتون کی ملازمت بحال،انہیں تحفظ دیں۔
منی لانڈرنگ کیس میں آئی جی سندھ عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ کا محکمہ شہریوں کےساتھ کیاسلوک کررہاہے ، جس پر آئی جی سندھ نے کہا کہ جسٹس تحقیقات کے بعد رپورٹ آپ کو پیش کروں گا۔
آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ کسی سطح پربدنیتی ہے تو سزا دی جائے گی، جس پر چیف جسس نے ریمارکس میں کہا کہ بدنیتی یقینی ہےہمیں معلوم ہے کس ممکنہ وزیرکےکہنےپرہورہاہے، آپ تحقیقات کریں،کوئی گڑبڑ ھ ہوئی تونتائج کاسامناکرناپڑےگا۔
آئی جی سندھ نے استدعا کی تحقیقات کےلئے تین دن دےدیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا 3 دن نہیں ایک دن دے رہے ،پرسوں رپورٹ پیش کریں۔
چیف جسٹس نے منی لانڈرنگ سے متعلق ایف آئی اے کو تفتیش جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے گواہوں کو ہراساں کرنے پر آئی جی سندھ سے 8 اگست تک رپورٹ طلب کرلی۔
بعد ازاں سپریم کورٹ میں منی لانڈرنگ کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔