کراچی میں اس سال بارشوں سے اربن سیلاب کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے، شہر میں نکاسئ آب کا بوسیدہ نظام اربن فلڈنگ کا سبب بن سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں مون سون سیزن رواں ماہ کے آغاز سے 30 ستمبر تک چل سکتا ہے، محکمہ موسمیات نے کراچی میں بھی اس سال شدید بارشوں کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
کراچی میں ممکنہ سیلاب کی وجہ
اربن پلانر محمد توحید کا کہنا ہے کہ کراچی کے 41 بڑے اور 510 چھوٹے نالوں میں صفائی نہ ہونے کی وجہ سے اس بات کے قوی امکانات موجود ہیں کہ شدید بارشوں کے نتیجے میں شہر بھر میں سیلاب اور تباہی آئے گی، کراچی میں سیلابی تباہی میں ان نالوں کا بہت بڑا کردار ہے۔
کراچی کو ڈوبنے سے کوئی نہیں بچا سکتا
اربن پلانر محمد توحید کا کہنا ہے کہ کراچی میں بارش کے پانی کو سمندر میں لے جانے والے قدرتی نالوں کو مکمل طور پر کھولنے کے ساتھ جب تک شہر کے انفرا اسٹرکچر کو موسمیاتی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نہیں بنایا جاتا، کراچی کو ڈوبنے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
قبضہ اور نا اہل انتظامیہ
کراچی میں پانچ سو چالیس برساتی نالے بنیادی طور پر گھروں سے نکاسئ آب اور برساتی پانی نکالنے کے لیے بنائے گئے تھے، ابتدائی طور پر یہ نالے اوپر سے کھلے ہوئے تھے، لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف ان پر قبضہ ہوتا گیا، بلکہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی نااہل انتظامیہ نے شہر کے سیوریج کے نالوں کو برساتی نالوں میں تبدیل کر دیا۔ دوسری جانب عام طور پر آس پاس کے رہائشی یا پھر حکومتی ادارے نالے میں کوڑے یا ملبے سے بھرائی کر کے اسے زمین بنا لیتے ہیں۔
تجاوزات کا وسیع جال
کراچی میں مختلف محکمہ جاتی رپورٹس کے مطابق شہر کے جملہ 540 نالوں میں 27 نالوں پر تجاوزات قائم ہیں، ان نالوں پر تجاوزات پانچ فی صد سے لے کر 80 فی صد تک ہیں۔ شیر شاہ نالے پر لیاری ندی سے اردو بازار تک 80 فی صد تجاوزات ہیں۔
دستاویزات کے مطابق یونیورسٹی روڈ پر سونگل نالے پر 70 فی صد تجاوزات قائم ہیں، رنچھوڑ لائن سے مائی کولاچی تک سٹی نالے پر بھی 70 فی صد تجاوزات ہیں، جب کہ نیو کراچی کے نالوں پر 60 فی صد اور 30 فی صد تجاوزات قائم ہیں۔
کچی بستیاں اور بڑے قدرتی نالے
کراچی کی 70 فی صد آبادی کچّی بستیوں میں رہتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق شہر میں کچّی آبادیوں کی تعداد میں سالانہ 10 فی صد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ شہر کی آبادی سالانہ تقریباً 5 فی صد کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔ کچّی بستیاں بغیر کسی منصوبہ بندی کے آباد کی جاتی ہیں، جہاں شہری سہولت (یوٹیلٹی سروس) باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت فراہم کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
اس نقشے کو بنانے والی ٹیم کے ایک رکن اور موجودہ سینیئر مینجر، میپنگ اینڈ ڈاکومیٹیشن، اورنگی پائلٹ پراجیکٹ اشرف ساگر کے مطابق ’’شہر کے تمام بڑے نالے بنیادی طور پر بارش کا پانی سمندر لے جانے والے قدرتی نالے ہیں، جو بعد میں نکاسئ آب کے لیے استعمال ہونے لگے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے دیکھا کہ جہاں سے یہ نالے شروع ہوتے ہیں، وہاں پر ان کی چوڑائی اچھی خاصی ہوتی ہے، مثلاً کسی نالے کے ابتدائی سرے پر چوڑائی 50 فٹ ہے، لیکن جب وہ کسی آبادی سے گزرنے لگتا ہے تو وہاں اس کی چوڑائی کم ہو کر 30 فٹ رہ جاتی ہے۔
شہر کا کچرا
حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے سیلاب میں ڈوبنے کا مسئلہ شہر کے کچرے سے شروع ہوتا ہے اور نالوں کی صفائی کے یہ ایک تلخ نظام پر ختم ہوتا ہے اور سال بہ سال یہ صورت حال اور خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔
ماہرین شہری منصوبہ بندی کہتے ہیں کہ کراچی کے نکاسئ آب کے نظام کو بہتر کرنے کے لیے نالوں کی صفائی کا انتظام مسلسل صفائی کا محتاج ہے، نہ کہ صرف مون سون تک۔ جب تک ان نالوں میں صفائی کا انتظام سالانہ بنیادوں پر نہیں کیا جائے گا، شدید بارشوں میں کراچی کو ڈوبنے سے نہیں بچایا جا سکتا۔