تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

ہالی ووڈ کی یادگار رومانٹک فلمیں

پاکستان اور بھارت کی طرح دہائیوں پہلے امریکا اور ہالی وڈ کی رومانٹک فلمیں شائقین کی توجہ کا مرکز تھیں‌ اور بڑے پردے پر زبردست کام یابیاں سمیٹنے والی اکثر فلموں کو کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔

ہالی ووڈ کی بعض رومانٹک فلموں سے متاثر ہو کر بعد میں ہندوستان اور پاکستان میں بھی فلمیں بنائی گئیں جو کام یاب ثابت ہوئیں۔ محبّت کے جذبے پر بنائی گئی ہالی وڈ کی فلموں میں بھی ہیرو، ہیروئن اور ایک ولن یا ظالم سماج کے ساتھ قربتیں، فاصلے، جذباتی کشمکش اور طربیہ یا المیہ انجام ہی دکھایا جاتا رہا ہے، لیکن وہاں جدید تکنیکی وسائل کے علاوہ پیشکش کا انداز اور کہانی پر توجہ ایسی فلموں کو زیادہ پُراثر اور جان دار بناتی ہیں۔

امریکا میں بھی ایک نسل جو اب بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ چکی ہے، وہ اسے فلموں کا سنہری دور تصوّر کرتی ہے اور اپنے زمانے کی فلموں کو شان دار یادگار قرار دیتی ہے۔ 1939ء کی فلم گون ود دی ونڈ (gone with the wind)، 1942ء میں بنائی گئی کاسا بلانکا (Casablanca)، 1957ء کی شاہ کار فلم افیئر ٹو ریمبر (an affair to remember) اور کئی دوسری فلموں کو شائقینِ سنیما نے زبردست پذیرائی اور سندِ قبولیت بخشی۔ یہاں ہم ہالی ووڈ کی چار رومانٹک فلموں کا تذکرہ کررہے ہیں جو اُس دور کی یادگار فلمیں‌ ہیں۔

’’سابرینا‘‘(Sabrina)
’’سابرینا‘‘(Sabrina) نے 1954ء میں ریلیز کے ساتھ ہی شائقین کو اپنی جانب متوجہ کرلیا تھا۔ اس فلم کے ہدایت کار بلی وائلڈر تھے اور وہی اس کے مصنّف بھی۔ یہ ان کے کیریئر کی ایک کام یاب فلم تھی۔ ہدایت کار کے کمالِ فن کے علاوہ اداکاروں کی پرفارمنس کو بھی کسی فلم کی کام یابی اور پذیرائی میں بنیادی دخل ہوتا ہے۔ اس فلم کی ہیروئن ہالی ووڈ کی مشہور اداکارہ آڈرے ہیپ برن تھیں۔

جذبۂ محبّت پر مبنی اس فلم میں ہیروئن یعنی سابرینا ایک لکھ پتی آدمی کے بیٹے کے پیار میں دیوانی ہوجاتی ہے۔ اس کا نام ڈیوڈ تھا اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ ڈیوڈ کی منگنی ہوچکی ہے۔ یہ منگنی اس نے اپنے باپ کے اصرار پر ایک اور امیر کبیر آدمی کی بیٹی سے کی تھی۔ یہ ایک قسم کی کاروباری منگنی تھی اور دونوں کے والدین اس رشتے میں‌ اپنا اپنا مالی فائدہ اور کاروباری مفاد دیکھ رہے تھے۔ اس قسم کی فلمیں‌ پاک و ہند میں بھی بہت بنا کرتی تھیں۔ کبھی ایک غریب اور ایک مال دار گھرانا دکھایا جاتا تو کہیں دونوں خاندان نہایت امیر کبیر اور بااثر ہوتے تھے جس میں محبّت ہر رکاوٹ پار کرلیتی اور انجام طربیہ ہوتا اور کہیں نہایت درد ناک انجام دکھایا جاتا۔ فلم سابرینا میں محبّت کو اس وقت مشکل سے دوچار ہونا پڑتا ہے جب ڈیوڈ کے والدین اسی کے چھوٹے بھائی کو سابرینا کی توجہ ڈیوڈ کی طرف سے ہٹا کر اپنی طرف مبذول کرانے کے لیے اس سے مراسم بڑھانے کو بھیجتے ہیں۔ یہ موضوع اس وقت بھی بہت عام بلکہ پائمال بھی تھا، لیکن اسکرین پلے بہت شان دار طریقے سے لکھا گیا تھا، جب کہ ہدایت کاری اور اداکاروں کی پرفارمنس نے اسے خاص بنا دیا تھا۔ یہ اپنے وقت کی ایک شان دار رومانوی فلم تھی۔

’’لو افیئر‘‘
1939ء میں فلم ’’لو افیئر‘‘ بڑے پردے پر سجائی گی تھی جو بہت خوب صورت اور ایک پُرتأثر فلم تھی۔ یہ اس لحاظ سے بھی ایک قابلِ‌ ذکر فلم ہے کیوں کہ اس کی کہانی کو کئی بار فلمایا گیا اور نئے انداز سے پیش کر کے شائقین کی توجہ حاصل کی گئی۔ اس رومانٹک فلم کی کہانی نے نئے ٹائٹل کے ساتھ ہر بار شائقین کو متأثر کیا اور یہ ان کے دلوں میں اُتر گئی۔ مون کے نام معروف اداکار و ہدایت کار وارن بیٹی نے اس فلم کو بڑے پردے پر پیش کیا تھا۔ اس میں‌ فرانس کے مشہور اداکار چارلس بوائر اور آئرین ڈو کو انھوں نے بطور ہیرو اور ہیروئن آزمایا تھا۔

اس فلم کی کہانی دو اجنبیوں کی اتفاقیہ ملاقات سے شروع ہوتی ہے جو رفتہ رفتہ ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوجاتے ہیں لیکن اس ملاقات سے پہلے وہ دونوں ہی منگنی کر چکے تھے۔ فلم دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مغرب میں‌ بھی لڑکا اور لڑکی کے مابین نسبت ٹھہر جانے یا شادی طے ہوجانے کو اہمیت دی جاتی تھی۔ اور اب یہ منگنی ان کے لیے مسئلہ بن گئی تھی۔ وہ دونوں ایک بحری جہاز میں سفر کے دوران اس محبّت میں‌ گرفتار ہوئے تھے۔

لڑکے اور لڑکی کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنی محبّت کو شادی کے تعلق میں بدلنے کے لیے اپنی نسبت کو ختم کرنے یا قائم رکھنے کا فیصلہ کریں۔ وہ ایک منصوبہ بناتے ہیں‌ اور آپس میں طے کرتے ہیں‌ کہ سفر ختم ہونے کے چھے ماہ بعد نیویارک کی ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ میں ملیں گے۔ اگر اس وقت تک ان کے دلوں میں ایک دوسرے کی محبّت اسی طرح قائم رہی تو وہ اپنی اپنی منگنی توڑنے کا اعلان کر دیں گے اور آپس میں‌ شادی کر لیں گے۔ لیکن فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح اتفاقات اور حادثات کے سبب ان کا یہ منصوبہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ اس فلم نے شائقین کو بہت محظوظ کیا اور کام یاب فلم ثابت ہوئی۔

’’این افیئر ٹو ریمببر‘‘
اسی کہانی کو ’’این افیئر ٹو ریمببر‘‘ میں بھی پیش کیا گیا تھا جو 1957ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی، اس میں مرکزی کردار کیری گرانٹ اور ڈیبوراکار نے نبھائے تھے۔ اس میں‌ بھی وہی بحری جہاز اور منگنی شدہ مسافر لڑکا لڑکی کو دکھایا گیا ہے جو نیویارک کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ وہاں وہ اپنے اپنے منگیتروں سے ملنے جارہے تھے۔ لیکن جہاز میں ہونے والی ان کی یہ ملاقات انھیں ایک دوسرے کی محبّت میں باندھ دیتی ہے اور وہ یہ وعدہ کرتے ہیں کہ ایک مقرر وقت کے بعد وہ طے شدہ جگہ ملاقات کریں گے۔ اگر انھیں ایک دوسرے کی محبّت کی شدت محسوس ہوگی تو وہ منگنیاں توڑ کر آپس میں شادی کر لیں گے۔ فلم آگے بڑھتی ہے اور وہ وقت آتا ہے جب ہیرو یعنی کیری گرانٹ طے شدہ وقت پر اس جگہ پہنچ جاتا ہے، لیکن رات گئے تک انتظار کرنے کے باوجود لڑکی وہاں نہیں‌ آتی اور وہ مایوس ہو کر لوٹ جاتا ہے۔

وہ سمجھتا ہے کہ لڑکی کی محبّت سچّی نہیں تھی۔ اس نے اپنا قول و قرار فراموش کردیا ہے۔ کچھ عرصے بعد اچانک ان دونوں کا ایک جگہ آمنا سامنا ہوجاتا ہے۔ اس موقع پر ہیرو سرد مہری دکھاتا ہے اور لڑکی کو بے وفائی کا طعنہ دیتا ہے۔ بعد میں اس پر کُھلتا ہے کہ ہیروئن ایک حادثے کا شکار ہو کر ٹانگوں سے معذور ہوچکی تھی اور اسی لیے مقررہ وقت پر اس کے پاس نہیں‌ آسکی تھی۔ لیکن وہ اس سے اسی طرح‌ محبّت کرتی تھی جس کا اقرار اس نے اوّلین ملاقات کے بعد کیا تھا۔

’’لو اسٹوری‘‘
ستّر کی دہائی میں امریکا میں‌ بننے والی فلم ’’لو اسٹوری‘‘ کی کہانی ایک ناول پر مبنی تھی۔ اس وقت ہدایت کار آرتھر ہلر نے مرکزی کردار کے لیے نئے چہروں کو آزمایا تھا۔ کہانی میں نو عمر لڑکا اور لڑکی کو کالج فیلو دکھایا ہے۔ ہیروئن کا تعلق ایک غریب گھرانے سے جب کہ ہیرو کا باپ انتہائی دولت مند اور ایک مغرور شخص بھی ہے۔ وہ اپنے بیٹے کے لیے ایک غریب لڑکی کو قبول نہیں‌ کرسکتا تھا، تب لڑکا اپنے باپ کی مرضی کے خلاف شادی کے لیے لڑکی کو لے کر پادری کی تلاش میں نکلتا ہے۔ اس شادی کی صورت میں اسے باپ کی تمام دولت سے بھی محروم ہونا پڑتا لیکن اسے اس بات کی پروا نہ تھی۔ پادری کے پاس جاتے ہوئے کار کو حادثہ پیش آتا ہے۔ زخمی ہیرو کئی دن تک بے ہوش رہتا ہے جب کہ ہیروئن کا چہرہ جھلس کر مسخ ہو چلا تھا۔

لڑکا دولت مند باپ کی اکلوتی اولاد تھا اور حادثے کی اطلاع پاکر باپ کا دل پیسیج جاتا ہے۔ وہ اس کا علاج کروانے کے ساتھ اسپتال والوں کو رقم کا لالچ دے کر جھوٹ بولنے پر مجبور کردیتا ہے، ہوش آنے پر لڑکے کو بتایا جاتا ہے کہ لڑکی حادثے میں ہلاک ہو چکی ہے۔ ہیرو کا دل کسی طرح یہ ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ دوسری طرف دولت مند باپ اس لڑکی کو دھمکیوں اور لالچ دے کر اپنے بیٹے کی زندگی سے نکل جانے پر آمادہ کر لیتا ہے اور کافی روپیہ خرچ کرکے اس کے چہرے کی پلاسٹک سرجری بھی کروا دیتا ہے۔ یہ ایک طویل مگر سسپنس سے بھرپور کہانی ہے جس کے آخر میں لڑکا اپنی محبّت کو پا لیتا ہے۔

Comments

- Advertisement -