کراچی : ایم کیو ایم کے رہنما عامرخان کہتے ہیں کہ سانحہ 12 مئی کا ملبہ ایک بار پھر ایم کیو ایم پر ڈالنے کی سازش کی جارہی ہے اگرسانحہ 12 مئی کی تحقیقات کرنی ہے تو اس تحقیقات میں تمام اداروں اور اُس وقت کے سربراہوں سے بھی تحقیقات کی جائے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی پریس کلب کے باہر بھوک ہڑتال کے اختتام کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، عامر خان کا مزید کہنا تھا کہ جب کسی بات پر بس نہ چلا تو متحدہ سے نکالے گئے افراد کو لاکر نئی جماعت بنادی گئی اور 80 کے دہائی کے الزامات کو ایم کیو ایم سے منسوب کرنے کی کوشیشں کی گئیں۔
رہنماء ایم کیوایم نے مزید کہا کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے تحفظات دور کیے جائیں مگر ہمارے تحفظات کو دور نہیں کیا جاتا اُس کے بدلے ہمارے کارکنان کو لاپتہ کر کے مخالف جماعت کے ہیڈ آفس پہنچا دیا جاتا ہے۔ کراچی آپریشن میں ہمارے 130 کارکنان کو کسی ادارے نے بازیاب نہیں کرایا گیا اور سب نے اُن کی موجودگی کا انکار کیا گیا، جن لاپتہ افراد کو کوئی بازیاب نہیں کرواسکا وہ پی ایس پی کے دفتر سے بازیاب ہوئے۔
عامر خان کا مزید کہنا تھا کہ ’’اگر حکومت کو تحقیقات کرنی ہیں تو ماضی میں قتل ہونے والے 185 پولیس اہلکاروں کے علاوہ 1985 سے 2016 تک ہونے والے تمام قتل عام تحقیقات ہونی چاہیں اور اس میں ملوث افراد کو قانون کے مطابق کڑی سزا دی جائے‘‘۔
ڈپٹی کنونیر رابطہ کمیٹی نے مطالبہ کیا کہ ’’ہمیں برابر کا شہری سمجھتے ہوئے ہمارے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کو بند کیا جائے اور ایم کیو ایم کے کارکنان کی ہلاکتوں اور لاپتہ ہونے کا نوٹس لیا جائے، عامر خان نے کہا کہ ’’ایم کیو ایم گرفتاریوں، جبری گمشدگیوں کے خلاف اپنا احتجاج جاری رکھے گی کیونکہ ہم پرامن جدو جہد پر یقین رکھتے ہیں‘‘۔
قبل ازیں رکن رابطہ کمیٹی شاہد پاشا نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’کراچی آپریشن میں ہونے والی کارروائیوں کو انٹیلی جنس کی بنیاد پر کیا جائے کراچی آپریشن میں ابھی تک مصدقہ اطلاعات پر کارروائیاں کی گئی ہیں جس کی وجہ سے کئی بے گناہ شہری بھی اس کی زد میں آئے اور پھر انہیں 90 روز کی حراست میں رکھ کر رہا کیا گیا جس سے اُن کی ساکھ متاثر ہوئی‘‘۔
شاہد پاشا نے مزید کہا کہ ’’کراچی آپریشن سے شہر میں امن و امان کی صورتحال بہت بہتر ہوئی ہے اور اس کے مثبت نتائج سامنے آئے تاہم اب سندھ کے شہری یہ چاہتے ہیں کہ اس آپریشن کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے رینجرز کو اندرونِ سندھ میں بھی کارروائی کا اختیار دیا جائے تاکہ پورے صوبے میں امن و امان کی فضاء قائم ہو‘‘۔
اس موقع پر ایم کیو ایم کے اسیر اور لاپتہ کارکنان کے اہل خانہ نے بھی اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے فریاد کی اور مطالبہ کیا کہ کراچی آپریشن میں صرف ایک مخصوص طبقے کو نشانہ نہ بنایا جائے اور سیاسی پابندیوں کو ختم کیا جائے۔ دو روزہ بھوک ہڑتال میں لاپتہ، اسیروں کے اہل خانہ کے علاوہ ممبران اسمبلی اور کارکنان کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
واضح رہے ایم کیو ایم کی جانب سے کارکنان کی گرفتاریوں اور جبری گمشدگیوں کے خلاف دو روزہ بھوک ہڑتال کے بعد اتوار کے روز عائشہ منزل سے نمائش چورنگی تک ریلی نکالنے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔