کراچی : متحدہ قومی موومنٹ کے ڈپٹی کنویئنر ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا ہے کہ رینجرز کو اختیارات دینے کی کبھی مخالفت نہیں کی، ہمارے منحرفین کو سامنے لاکر نئی جماعت بنادی گئی اور اُسے مضبوط کرنے کے لیے لاپتا کارکنوں کو بازیاب کرواکر ٹولے کا حصہ بنایا جارہا ہے، اتوار کو عائشہ منزل تا مزار قائد ریلی نکالی جائے گی۔
کراچی پریس کلب کے باہر بھوک ہڑتالی کیمپ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ ’’ایم کیو ایم کا کوئی ایسا گرفتار کارکن نہیں جس پر دورانِ حراست تشدد نہ کیا گیا ہو، بے گناہ کارکنان کو اغوا کر کے لاپتا کردیا جاتا ہے اور پھر وہ اچانک مخالف جماعت کے آفس سے برآمد ہوتے ہیں‘‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’’کراچی آپریشن کے لیے آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی تھی جس میں تمام جماعتوں نے دو سال کے لیے کراچی میں آپریشن کی اجازت دی گئی مگر دوسری بار آپریشن میں توسیع کے حوالے سے اس قسم کا کوئی اقدام عمل میں نہیں لایا گیا۔ ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ’’رینجرز اختیارات کے حوالے سے ایم کیو ایم نے کبھی مخالفت نہیں کی مگر ہمیں یہ بتایا جائے کہ آخر سندھ پولیس کب اتنی اہل ہوگی کہ وہ جرائم پر قابو پانے کے لیے استعمال ہو۔ اندرونِ سندھ میں رینجرز کو اختیارات دیتے وقت حکمران پولیس کے کردار کو سراہتے ہیں مگر کراچی میں رینجرز کو خصوصی اختیارات دیے جاتے ہیں جو کراچی کے عوام کے ساتھ متعصبانہ سوچ کی غمازی ہے‘‘۔
ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ’’کراچی آپریشن شروع ہونے کے بعد سے ہمارے کئی کارکنان کو گرفتار کیا گیا، جن کارکنوں کا ایف آئی آر میں نام تک درج نہیں ہوتا وہ اچانک مطلوب ہوجاتے ہیں اور انہیں دو دو ماہ تک لاپتا کردیا جاتا ہے تاہم جن لوگوں نے سو سو افراد کو قتل کیا انہیں ڈرائی کلین کر کے صاف کرتے ہوئے معاف کردیا گیا‘‘۔
رہنما ایم کیو ایم کا کہنا تھا کہ ’’ کراچی آپریشن میں آئین و قانون کی خلاف ورزیوں میں مسلسل اضافہ ہورہاہے، انہوں نے انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ ’’وہ بازیاب ہونے والے کارکنان سے معلوم کریں کہ انہیں کہاں رکھا گیا تھا اور اس دوران اُن کے ساتھ کیسا سلوک کیا گیا، فاروق ستار نے مزید مطالبہ کیا کہ بازیاب ہونے والے کارکنان کے حوالے سے تحقیقاتی کمیٹی قائم ہونی چاہیے تاکہ مستقبل میں اس عمل سے بچا جاسکے اور اس گھناؤنے عمل میں ملوث افراد کو کڑی سزا دی جائے۔
ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ’’آفتاب احمد کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا جس کے بعد ہمیں یقین دہانی کروائی گئی کہ تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دی جائے گی مگر اُس حوالے سے اب تک کسی کی جانب سے کوئی رپورٹ موصول نہیں ہوئی اور اُس بات کو بیانات کی نظر انداز کردیا گیا۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے وفاق اور صوبائی حکومت سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ ’’کیا کراچی پورے سندھ سے مختلف ہے؟، رینجرز کے اختیارات کو صرف کراچی تک محدود کرنا ناانصافی ہے‘‘۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے شکوہ کیا کہ ’’ہمارے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا گیا، نامزد میئر وسیم اختر کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کی گئی جس کا مقصد ایم کیو ایم کو تقسیم کرنا ہے مگر عاقبت نااندیش یہ بھول گیے کہ ایم کیو ایم کو کبھی کوئی تقسیم نہیں کرسکتا ماضی کی طرح اس بار بھی سازشیں کرنے والے ختم ہوجائیں گے مگر ایم کیو ایم عوام میں موجود رہے گی، آپریشن کے نام پر ہم سے جو قیمت وصول کی جارہی ہے اس کے خوف ناک نتائج سامنے آسکتے ہیں‘‘۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے اعلان کیا کہ’’ دو روزہ بھوک ہڑتال کے بعد اتوار کے روز عائشہ منزل سے مزار قائد تک ریلی کا انعقاد کیا جائے گا جس میں کراچی کے عوام کی بڑی تعداد شرکت کرکے ایک بار پھر مظالم کے حوالے سے آواز بلند کریں گے‘‘۔
قبل ازیں رکن رابطہ کمیٹی ایڈووکیٹ گل فراز خٹک نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’کراچی میں آپریشن کا مطالبہ ایم کیو ایم کی جانب سے کیا گیا تھا مگر افسوس اسٹیبلشمنٹ نے ماضی سے سبق نہ سیکھا اور 92 کی طرز پر اس آپریشن کو متنازع بناتے ہوئے ایک جماعت اور مخصوص کمیونٹی کی طرف موڑ دیا گیا۔
گل فراز خٹک نے مزید کہا کہ ’’شہر میں ناکوں اور سخت سیکیورٹی کے باوجود ایم کیو ایم کے کارکنان لاپتا ہوتے رہے، کارکنان کو بازیاب کروانے کے لیے ہم نے ہر جگہ دستک دی مگر ہمیں کہیں سے انصاف نہیں ملا، لاپتا ہونے والے کارکنان کے اہل خانہ نے ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی مگر وہ آج تک التوا کا شکار ہیں‘‘۔
رہنما ایم کیو ایم خوش بخت شجاعت نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’دیگر جماعتوں کے پروگرامز میں کھانے حاصل کرنے کے لیے کارکنان کی بدمزگی دیکھنے میں آتی ہے مگر ایم کیو ایم کے کارکنان لاپتا اور اسیر کارکنان کے اہل خانہ کے ساتھ ایک خاندان کی طرح بھوک ہڑتال میں پر امن طور پر بیٹھے ہیں‘‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’’اب وقت آگیا ہے کہ ایم کیو ایم کے بے گناہ کارکنان کو بازیاب کروایا جائے اور ماضی سے سبق حاصل کرتے ہوئے آئندہ اس آپریشن کو متنازع بننے سے روکا جائے، انہوں نے کہاکہ ’’ہم کافی عرصے سے آپریشن میں ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں مگر آج تک کسی بھی مظاہرے میں تشدد نہیں کیا گیا اور نہ ہی چھاپوں کے دوران کسی قسم کی مزاحمت کی گئی، ہم قانون کا احترام کرتے ہیں مگر خواہش یہ ہے کہ ہمارے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے سلسلے کو بند کیا جائے‘‘۔
اس موقع پر لاپتا اور اسیر کارکنان کے اہل خانہ نے بھی میڈیا کے سامنے اپنے دکھ کی روداد سناتے ہوئے حکومت، آرمی چیف آف اسٹاف، چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کیا کہ اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ہمارے پیاروں کو بازیاب کروائیں۔