جمعہ, ستمبر 13, 2024
اشتہار

مبارک ثانی کیس میں وفاقی حکومت کی درخواست منظور، فیصلوں سے متنازع پیراگراف حذف

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے مبارک ثانی کیس میں وفاقی حکومت کی درخواست منظور کرتے ہوئے 6 فروری اور 24 جولائی کے فیصلوں سے متنازع پیراگراف حذف کر دیے۔

سپریم کورٹ میں مبارک ثانی کیس کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت کی درخواست منظور کی گئی جس کے تحت عدالت نے 6 فروری اور 24 جولائی کے فیصلوں سے متنازع پیراگراف 7 اور 42 حذف کیے۔ درخواست پر فیصلہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے پڑھ کر سنایا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان بینچ کا حصہ ہیں۔ فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم کسی غلطی سے مبرا نہیں ہیں، ہم سے غلطی ہو تو انا کا مسئلہ بنانے کے بجائے اصلاح کی جائے۔

- Advertisement -

کیس میں وقفے سے قبل سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے کہا کہ اگر ہمارے فیصلے میں کوئی غلطی ہے تو ضرور درست کریں گے، علمائے کرام سے پہلے بھی رائے لی اب بھی لیں گے۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیر اعظم اور اسپیکر سمیت ارکان پارلیمنٹ نے عدالت سے رجوع کرنے کا کہا۔ اس دوران ایڈووکیٹ حنیف راہی نے بات کرنے کی کوشش کی جس پر قاضی فائز عسیٰ نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ تشریف رکھیں صرف فریقین کو سنیں گے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان بھی آئے ہیں ان سے رائے لے لیتے ہیں، ان سمیت تمام علما کو سنیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم مسلمان ہیں اور ہر نماز میں دعا کرتے ہیں کہ فیصلے میں غلطی نہ ہو۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ نظرثانی میں جب آپ نے فیصلہ دیا تو پارلیمنٹ اور علما نے حکومت سے رابطہ کیا، کہا گیا کہ حکومت کے ذریعے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے، ظاہر ہے دوسری نظرثانی تو نہیں ہو سکتی اس لیے ضابطہ دیوانی کے تحت آئےہیں، معاملہ مذہبی ہے تو علمائے کرام کو بھی سن لیا جائے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ انسان اپنے قول فعل سے پہچانا جاتا ہے۔ اس موقع پر مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ میں اس کیس میں دلائل دینا چاہوں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے تمام فریقین کی حاضری لگا لیتے ہیں پھر سب کو سن لیں گے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ علما کی رائے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے سامنے آ چکی ہے، آپ کے فیصلے کے خلاف یہ آرا آئی ہیں، ہم پاکستان میں غیر مسلموں کیلیے کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرنا چاہتے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمیں گرداسپور اور فیروزپور ملتے تو کشمیر بھی ہمیں مل جاتا، سازش سے یہ علاقے ہم سے الگ نہ رکھے جاتے تو کشمیر بھی ہمیں ملتا، میرے والد نے ایک قلم بھی پاکستان سے نہیں لیا، میں نے بھی کوئی پلاٹ نہیں لیا اگر لیا تو مجھ پر انگلی اٹھائیں، ماضی میں لوگ قاضی یا جج بننا ہی نہیں چاہتے تھے کیونکہ یہ مشکل ہے، مجھے بھی قاضی بننے کا کوئی شوق نہیں تھا۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آج آپ سب شکایات کا ازالہ کر رہے ہیں، مبارک ثانی کو آپ ضمانت کا مستحق سمجھتے ہیں تو الگ بات ہے، توہین آمیز اقدامات پر دفعات ساری لگیں گی، قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی کمیٹی کا فیصلہ پارلیمان نے ویب سائٹ پر نہیں ڈالا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ آپ پارلیمنٹ میں اٹھائیں۔

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ مبارک ثانی کا ٹرائل جاری رہنا چاہیے، اسلامی نظریاتی کونسل کی آرا کو مدنظر رکھا جائے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ نے نظرثانی کی درخواست دی ہم نے فوری لگا دی کوئی بات چھپائی؟

مفتی تقی عثمانی کے دلائل

ویڈیو لنک پر موجود مفتی تقی عثمانی کا کہنا تھا کہ نظرثانی درخواستوں کے فیصلے میں کچھ قرآنی آیات کا حوالہ دیا گیا، اچھی بات ہے چیف جسٹس فیصلوں میں آیات کا حوالہ دیتے ہیں، ایسی آیات لکھ دی جائیں جن کا معاملے سے تعلق ہی نہ ہو تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ معذرت خواہ ہوں کہ آپ کو ٹوک رہا ہوں مگر آپ ان نکات کی نشاندہی کریں، اگر فیصلے میں کوئی غلطی ہے یا غلط لکھا گیا ہے تو عدالت کی رہنمائی کی جائے، جنہیں نوٹس کیا تھا ان کی جانب سے ہمیں بہت سارے دستاویزات ملے، اگر ان سب کا بغور جائزہ لیتے تو شاید فیصلے کی پوری کتاب بن جاتی، ان تمام دستاویزات کو دیکھ نہیں سکا وہ میری کوتاہی ہے، اگر کوئی بات سمجھ نہیں آئی تو ہم سوال کریں گے، اسلامی ریاست ہے اس لیے عدالتی فیصلوں میں قرآن و حدیث کے حوالہ دیتے ہیں، میں کوئی غلطی سے بالاتر نہیں ہوں۔

مفتی تقی عثمانی کا کہنا تھا کہ معاملہ ایسا ہو تو لمبے فیصلے لکھنے پڑھتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز رعیسیٰ نے کہا کہ 6 فروری کا فیصلہ نظر ثانی کے بعد پیچھے رہ گیا ہے، اب ہمیں آگے کی طرف دیکھنا چاہیے، میرا مؤقف ہے کہ ہم امریکا اور برطانیہ کی مثالیں دیتے ہیں اپنی کیوں نہ دیں، کوئی میٹرک کا امتحان نہ دے تو فیل ہونے کا خطرہ بھی نہیں ہوتا۔

مفتی تقی عثمانی کا کہنا تھا کہ آپ فیصلے میں طے شدہ مسائل سے زیادہ اصل مسئلہ کو وقت دیتے، قادیانی اقلیت میں ہیں لیکن خود کو غیر مسلم تسلیم نہیں کرتے، قادیانیوں کو پارلیمنٹ میں بھی نشستیں دی گئیں۔

اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 2002 کے بعد قانون تبدیل ہوگیا اور قادیانیوں کی ایک نشست تھی جو ختم کر دی گئی، اب صرف اقلیت کی 10 مخصوص نشستیں رکھی گئی ہیں۔ اس پر مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ قادیانی مسلم کے بجائے اقلیت کے طور پر رجسٹر ہو سکتے ہیں، اقلیت خود کو مان لیں تو پھر ان کو اقلیتوں کی نشستیں بھی مل سکتی ہیں، میرے پاس ان مسائل سے متعلق کتاب ہے عدالت چاہے تو فراہم کردوں گا۔

مفتی طیب قریشی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ مجھ سے پہلے جن علما نے رائے دی ہے ان سے متفق ہوں، قادیانیوں نے اپنی تفسیر برصغیر کے مسلمانوں کی طرز پر ترتیب دی ہے، کوئی عام مسلمان اپنی اور قادیانیوں کی تفسیر میں تفریق نہیں کر پاتا، عدالت سے استدعا کر رہا ہوں مسلمان مضطرب ہیں تسلی دیں، جو تجاویز علما نے دی ہیں ان پر عملدرآمد کیا جائے۔

مفتی طیب قریشی نے چیف جسٹس پاکستان کو پشاور میں مسجد مہابت خان کے دورے کی دعوت دی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ مسجد شاید چوک یادگار میں ہے؟ میرے والد نے تحریک پاکستان میں سب سے بہترین تقریر چوک یادگار میں کی تھی، والد نے بتایا مجمع مسلم لیگ مخالف تھا تقریر کے بعد قائد اعظم کے نعرے لگائے۔

صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر کے دلائل

صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نظرثانی فیصلے کا پیراگراف 42 حذف کرے، تجویز ہے معاملہ ضمانت کا تھا اس کو ضمانت تک محدود رکھا جائے، فیصلے کے دیگر تمام پیراگراف کو حذف کیا جائے، قانونی معاملات کیلئے وکلا کو بھی سنا جائے۔

رہنما جماعت اسلامی فرید پراچہ کے دلائل

رہنما جماعت اسلامی پاکستان فرید پراچہ نے دلائل دیے کہ قادیانی خود کو غیر مسلم نہیں مانتے اسی وجہ سے یہ مسئلہ پیدا ہوتا ہے، قادیانیوں کا اپنے آپ کو مسلمان کہنا آئین کے مطابق جرم ہے، عدالتی فیصلے کے پیرا 7 سے ہمیں اعتراض ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مفتی تقی عثمانی اور مولانا فضل الرحمان نے جو بتایا اس کے علاوہ نئی بات ہے تو بتائیں۔ فرید پراچہ نے کہا کہ یہ صرف مبارک ثانی کا معاملہ نہیں بلکہ 100 سالہ جہدوجہد اور تاریخ کا معاملہ ہے، عدالتی فیصلے کے پیرا 37،38،39،40، اور 49 سی کا بھی دوبارہ جائزہ لیں۔

مذہبی اسکالر عطا الرحمان کے دلائل

مذہبی اسکالر عطا الرحمان نے دلائل دیے کہ کچھ چیزیں قابل تعریف ہیں ان کا ذکر ہونا چاہیے، آپ عدالتی فیصلوں پر قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر کا معاملہ قابل تحسین اقدام تھا، شریعت اپیلٹ بینچ کئی عرصے سے التوا کا شکار تھا اسے آپ نے مکمل کیا، مبارک ثانی کیس میں امید ہے یہ آخری موقع ہوگا اور مناسب فیصلہ آئے گا، قادیانیوں کا مسئلہ یہ ہے وہ تو آئین پاکستان کو ہی نہیں مانتے، قادیانی ابھی بھی تفسیر صغیر کی تشہیر کر رہے ہیں۔

اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ قادیانی اب بھی ایسا کر رہے ہیں تو پھر اس پر ایف آئی آر کاٹی جا سکتی ہے۔ اس پر عطا الرحمان نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز پر ہم دیگر علما کی طرح متفق ہیں، مسلمانوں کے جذبات اس معاملے سے جڑے ہوئے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قادیانیوں کو آئین اور قانون کے مطابق حقوق دو صورتوں میں ملیں گے، قادیانی خود کو غیر مسلم تصور کریں یا پھر ختم نبوت ﷺ کو مان لیں۔

عدالت میں موجود لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ میرا اور صاحبزادہ حامد رضا کا نام بھی فہرست میں شامل کریں، ہم پارلیمانی کمیٹی اور پارلیمنٹ کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کھوسہ صاحب پارلیمنٹ تو عدالتی فیصلے کالعدم بھی قرار دے سکتی ہے، پارلیمان میں جا کر اپنا اختیار استعمال کریں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں