تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

قصّے کہانیاں اور مغل بادشاہ اورنگزیب

مشاہیر کی زندگی اور تاریخی واقعات کا ایک راز یہ ہے کہ ان سے منسوب جو قصّے اور باتیں مشہور ہو جاتی ہیں، ان کی صحت بھی بہت حد تک مشتبہ ہو جاتی ہے۔ آج مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کا یومِ وفات ہے جن کی ذاتی زندگی اور عہدِ حکومت سے متعلق کئی واقعات اور قصّے مشہور ہیں۔

صدیوں‌ پہلے تاریخ کی مستند کتابوں‌ میں‌ جس ہندوستان کا ذکر ملتا ہے وہ دنیا کا امیر ترین ملک تھا۔ اس عہد کے مؤرخین نے اس ملک کی معاشرت اور حکم رانی کا آنکھوں دیکھا حال رقم کیا اور مغل خاندان، شاہی دربار کے فیصلے اور اشرافیہ کے حالات بھی کتاب میں‌ محفوظ کر لیے۔ لیکن عوام اورنگزیب عالمگیر سے ایسے قصّے بھی منسوب ہیں‌ جن کا کوئی مستند حوالہ موجود نہیں۔

ہندوستان میں تختِ شاہی پر محی الدّین اورنگزیب کے لقب سے متمکن ہوئے تھے جن کے والد شاہجہان نے انھیں عالمگیر کا خطاب دیا تھا۔ اورنگزیب 3 نومبر 1618ء کو پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ ارجمند بانو بیگم تھیں جو ممتاز محل کے نام سے مشہور تھیں۔

اورنگزیب عالمگیر نے قرآن حفظ کیا اور اسلامی علوم کے علاوہ ترکی ادب کی تعلیم بھی حاصل کی۔ انھوں نے خطاطی بھی سیکھی اور اس فن میں‌ ماہر ہوئے۔ اس دور کے رواج کے مطابق گھڑ سواری، تیراندازی اور فنونِ سپہ گری میں بھی عالمگیر کو کمال حاصل تھا۔ سترہ برس کی عمر میں 1636ء دکن کا صوبیدار مقرر ہوئے۔ اس دوران کئی بغاوتوں کو فرو کیا۔ اور چند نئے علاقے فتح کیے۔

شاہجہان کی بیماری کے بعد افراتفری اور سلطنت کے علاقوں میں انفرادی حکومت قائم ہوجانے کے بعد عالمگیر نے ان سے اور اپنے بھائی سے جنگ کر کے تاج اور تخت حاصل کیا تھا۔ کہتے ہیں‌ کہ اپنے دور میں‌ بادشاہ نے ہندوؤں اور مسلمانوں میں‌ رائج کئی فضول رسموں کا خاتمہ کیا اور نشہ آور اشیاء پر پابندی عائد کی۔ اسی طرح‌ کھانے پینے کی مختلف اجناس کو محصول سے آزاد کیا۔

اورنگزیب نے 49 سال تک 15 کروڑ افراد پر حکومت کی۔ ان کے دور میں مغل سلطنت اتنی وسیع ہوئی کہ پہلی بار تقریباً پورا برصغیر اس سلطنت کا حصّہ بنا۔

بادشاہ عالمگیر احمد نگر میں بیمار ہوئے تھے اور 3 مارچ 1707ء کو جب ان کی عمر نوّے برس تھی، دارِ بقا کو لوٹ گئے۔ انھیں ان کی وصیت کے مطابق خلد آباد میں دفن کیا گیا۔ اکثر مؤرخین نے بادشاہ کو پرہیز گار، مدبر اور اعلیٰ درجے کا منتظم لکھا ہے۔ ان کے بارے میں‌ یہ بھی مشہور ہے کہ وہ قرآن مجید لکھ کر اور ٹوپیاں سی کر گزارہ کرتے تھے۔ وہ فارسی کے اچھے مضمون نویس تھے جن کے خطوط رقعاتِ عالمگیر کے نام سے مرتب ہوئے۔ ہندوستان کی اسلامی تاریخ میں اس مغل بادشاہ کی کتاب فتاویٰ عالمگیری کو بھی خاص اہمیت اور شہرت حاصل ہے۔

Comments

- Advertisement -