پیر, مارچ 31, 2025
اشتہار

مغل دور میں فنِ کتابت

اشتہار

حیرت انگیز

بادشاہ خوش نویسی سے گہری دل چسپی رکھتے تھے، اس لیے شاہی کتب خانوں کے لیے کاتب کا اہتمام خاص طور پر کیا جاتا اور یگانۂ روزگار کاتب ملازم رکھے جاتے تھے۔

شاہ جہاں کے عہد میں کاتبوں کی قدر و منزلت اتنی بڑھی کہ انہیں مہتمم کے عہدوں پر فائز کر دیا گیا۔ یہ کتب خانوں کے لیے کتابوں کے نسخے تیار کرتے تھے، ان سے بوقتِ ضرورت کتابوں کی نشر و اشاعت کا بھی کام لیا جاتا تھا۔ چناں چہ جہاں گیر کو جب تزکِ جہاں گیری کی اشاعت کی ضرورت ہوئی، تو اس نے کاتبوں کو اس کے نسخے تیار کرنے کا حکم دیا۔ یہ نسخے حکام اور ملک بھر کے امرا میں تقسیم کیے گئے۔

خوش نویسی کے فن میں ہندوستان بھی کسی اسلامی ملک سے پیچھے نہیں رہا۔ یہاں کے بادشاہوں، صوفیوں اور عالموں نے اسے عرشِ معلی پر پہنچا دیا تھا۔ ایک طرف سلطان ناصر الدین محمود اور عالم گیر تختِ شاہی پر بیٹھے ہوئے قرآن مجید کے نسخے لکھ رہے تھے۔ دوسری طرف سید عبدالجلیل بلگرامی جیسے ذی علم صوفی کے دست و قلم کتابت میں مصروف تھے۔

لیکن اس فن کی اصل ترقی عہد مغلیہ میں ہوئی۔ اس سے پہلے سلطان ابراہیم غزنوی اور سلطان ناصر الدین محمود کے نام کاتبوں کی فہرست میں ملتے ہیں، مگر اس زمانہ میں یہ فن پوری طرح ترقی نہ کر سکا۔ کتابیں عموماً خط شکست میں لکھی جاتی تھیں۔ مغلوں کے حسن ذوق نے اسے پسند نہ کیا اور خط نستعلیق میں کتابیں لکھوائیں۔ بابر سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک سارے مغل بادشاہ، شاہ زادیاں اور شاہ زادے خوش نویسی سے بے انتہا شغف رکھتے تھے۔ شاہ جہاں نہایت اچھا خوش نویس تھا۔ عالم گیر کو بھی اس فن میں بڑی دست گاہ حاصل تھی۔ بزم تیموریہ میں ہے کہ وہ شاہ زادگی سے لے کر آخری عمر تک فرصت کے اوقات میں قرآن شریف لکھا کرتا تھا۔ اس نے مدینہ منورہ بھیجنے کے لیے دو قرآن اپنے ہاتھ سے لکھے اور ان کی تزئین وغیرہ پر سات ہزار روپے صرف کیے۔ بہادر شاہ ظفر کے ہاتھ کی کچھ وصلیاں (خوش خطی کے مشق کے کاغذ) علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کتب خانہ میں موجود ہیں۔ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغلوں کے زوال کے بعد بھی خطاطی کا شوق کمال پر تھا۔

خود مختار ریاستوں کے حکم راں بھی اس فن کے بڑے دل دادہ اور مربی تھے۔ گولکنڈہ کے سلطان قلی قطب شاہ اور بیجا پور کے سلطان ابراہیم عادل شاہ ثانی خوش نویس تھے۔ نوابین اودھ نے فنِ خوش نویسی کی جس طرح سرپرستی کی اس کا حال عبدالحلیم شرر نے ”گزشتہ لکھنؤ“ میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان شاہانہ سرپرستیوں کے اثر سے وراقیت اور نساخیت کا نظام ہندوستان بھر میں قائم ہوگیا تھا اور فنِ کتابت نے اتنی ترقی کرلی تھی کہ بقول مولانا منظر احسن گیلانی ایک ایک آدمی صرف اپنے قلم سے مستقل کتب خانہ مہیا کرلیتا تھا۔

ابوالفضل کے والد شیخ مبارک ناگوری نے اپنے ہاتھ سے پانچ سو ضخیم کتابیں لکھی تھیں۔ اس زمانے میں یہاں ایسے با کمال خوش نویس پیدا ہوئے جن کی نظیر نہیں ملتی۔

(محمد زبیر کی کتاب اسلامی کتب خانے سے انتخاب)

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں