پیر, جون 17, 2024
اشتہار

زیبُ النّسا: مغل شہزادی جنھیں یورپی مصنّفین نے بدنام کرنے کی کوشش کی!

اشتہار

حیرت انگیز

ہندوستان میں مغلیہ دور کی تاریخ اور جن بااثر شخصیات کا ذکر اکثر کیا جاتا ہے، ان میں شہزادی زیبُ النّسا بھی شامل ہیں۔ وہ ہندوستان کے بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی پہلی اولاد اور چہیتی بیٹی تھیں۔

زیبُ النّسا کا سنہ پیدائش 1638ء ہے۔ انھوں نے 1652ء سے 1657ء تک کا بیشتر عرصہ اپنے والد کے ساتھ دکن میں گزرا جہاں وہ صوبے دار تھے۔ 1658ء میں اورنگزیب بادشاہ بنے تو اپنے کنبے کو دولت آباد سے دلّی طلب کیا کہ وہ بھی جشن میں شریک ہوں۔ زیبُ النّسا ان کی چہیتی بیٹی تھیں۔ باپ نے انھیں دلّی آنے کے بعد ’پادشاہ بیگم‘ کا خطاب دیا۔ اس منصب کے ساتھ انھیں وسیع جاگیر عطا ہوئی اور مؤرخین کے مطابق وہ چار لاکھ روپے سالانہ وظیفہ بھی پاتی تھیں۔
شہزادی زیب النسا مطالعہ کا شوق رکھتی تھیں۔ انھیں منصب اور اپنے بااثر ہونے کا لحاظ تو بہت تھا، مگر وہ دربار کے معاملات میں یا سازشوں میں دل چسپی نہیں رکھتی تھیں۔ تاہم وہ وقت بھی آیا جب محلّاتی سازشوں نے بادشاہ کو شہزادی سے ناراض کردیا اور وہ ان کی معتوب ٹھہریں لیکن بعد میں ان کی صفائی سامنے آگئی تھی۔

ایک فرانسیسی مستشرق خاتون اینی کری نیکی نے لکھا ہے کہ وہ تصوف میں فرید الدّین عطار اور جلال الدین رومی کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھتی تھیں۔ ’وہ حساب، جغرافیہ ، شہسواری، نیزہ بازی اور شمشیر زنی میں اپنے بھائیوں اور کسی بھی ہم عمر عم زاد سے کم نہ تھیں۔’

- Advertisement -

شبلی نعمانی جیسے عظیم مؤرخ، نقاد، شاعر اور انشا پرداز نے زیب النسا کے کمالاتِ علمی اور عام اخلاق و عادات کے بارے میں لکھا ہے، تمام مؤرخین نے بہ تصریح لکھا ہے کہ زیب النساء علوم عربیہ اور فارسی زبان دانی میں کمال رکھتی تھی۔ نستعلیق، نسخ اورشکستہ خط نہایت عمدہ لکھتی تھی۔ لیکن اس کی تصنیفات سے آج کوئی چیز موجود نہیں۔ عام طور پر مشہور ہے کہ وہ مخفی تخلص کرتی تھی۔ اور دیوان مخفی جو چھپ کر شائع ہو چکا ہے اسی کا ہے۔ لیکن یہ صحیح نہیں۔ کسی تاریخ یا تذکرہ میں اس کے تخلص یا دیوان کا ذکر نہیں۔

اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ وہ شاعر تھی لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کلام ضائع ہوگیا۔ اسی تذکرہ میں ملا سعید اشرف کے حال میں لکھا ہے کہ زیب النساء کی بیاض خاص ایک خواص کے ہاتھ سے جس کا نام ارادت فہم تھا، حوض میں گر پڑی۔

زیب النسا کی تصنیفات و تالیفات سے زیب المنشات کا ذکر البتہ تذکروں میں آیا ہے۔ تذکرہ الغرائب کے مصنف نے لکھا ہے کہ میں نے اس کو دیکھا ہے، زیب النساء کے خطوط اور رقعات کا مجموعہ ہے۔

شہزادی کی علم پروری کے شبلی لکھتے ہیں، زیب النساء نے خود کوئی تصنیف کی ہو یا نہ کی ہو لیکن اس نے اپنی نگرانی میں اہلِ فن سے بہت سی عمدہ کتابیں تصنیف کرائیں۔ ایک جگہ وہ رقم طراز ہیں، زیب النساء کا دربار حقیقت میں ایک اکادمی (بیت العلوم) تھی۔ ہر فن کے علما اور فضلا نوکر تھے جو ہمیشہ تصنیف اور تالیف میں مصروف رہتے تھے۔ یہ کتابیں عموماً اس کے نام موسوم ہوتی تھیں یعنی ان کتابوں کے نام کا پہلا جزو زیب کا لفظ ہوتا تھا۔ اس سے اکثر تذکرہ نویسوں کو دھوکہ ہوا ہے اور انہوں نے وہ کتابیں زیب النسا کی تصنیفات میں شمار کیں، زیب النسا نے جو کتابیں تصنیف کرائیں ان میں زیادہ قابل ذکر تفسیر کبیر کا ترجمہ ہے۔ یہ مسلم ہے کہ تفسیروں میں امام رازی کی تفسیر سے زیادہ جامع کوئی تفسیر نہیں۔ اس لئے زیب النسا نے ملا صفی الدین آردبیلی کو، جو کشمیر میں مقیم تھے، حکم دیا کہ اس کا فارسی میں ترجمہ کریں۔ چنانچہ اس کا نام زیب التفاسیر رکھا گیا۔ بعض تذکرہ نویسوں نے غلط لکھ دیا ہے کہ وہ زیب النساء کی مستقل تصنیف ہے۔ زیب النسا نے تصنیف و تالیف کا جو محکمہ قائم کیا تھا اس کے ساتھ ایک عظیم الشان کتب خانے کا ہونا بھی ضروری تھا۔ جس سے مصنفین فائدہ اٹھا سکیں۔ چنانچہ بیگم موصوف نے ایک نہایت عظیم الشان کتب خانہ قائم کیا۔

شہزادی کے بارے میں ایک مضمون میں ممتاز ادیب اور افسانہ نگار زاہدہ حنا نے لکھا، اورنگزیب عالم گیر کی سب سے بڑی بیٹی شہزادی زیب النسا نے اپنے پردادا شہنشاہ اکبر جیسی بے مثال یادداشت پائی تھی‘ شاید یہی وجہ ہے کہ تین برس کی عمر میں اسے قرآن کی متعدد آیات یاد ہوچکی تھیں۔ مسلمانوں کی روایت کے مطابق چار برس، چار ماہ اور چار دن کی عمر میں اس کی رسم بسم اللہ ہوئی اور اسے ایک ایسی حافظۂ قرآن مریم کے سپرد کردیا گیا جو نیشا پوری تھی اور اپنے شوہر شکر اللہ کشمیری کے ساتھ ہندوستان آئی تھی۔ زیب النساء نے سات برس کی عمر میں قرآن حفظ کرلیا تو شہزادہ اورنگ زیب کے لیے پہلی اولاد کے حوالے سے یہ ایک یادگار واقعہ تھا۔ لڑکیوں کے حفظِ قرآن پر اس طرح خوشی نہیں منائی جاتی تھی لیکن اورنگ زیب نے اس موقع پر ایک شاندار تقریب منعقد کی اور اسے یادگار بنا دیا۔ اورنگ زیب کی بے پایاں مسرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حافظہ مریم کو 30 ہزار اشرفیاں بہ طور انعام دی گئیں اور غریبوں میں بڑے پیمانے پر روپے تقسیم کیے گئے۔

شہزادی زیب النسا نے شادی نہیں کی تھی اور بعض تاریخی تذکروں میں ان کے عشق کا ایک قصہ آیا ہے جس سے شہزادی کا امیج خراب ہوتا ہے۔ اس حوالے سے شبلی نے لکھا ہے کہ شہزادی کے بارے میں غلط باتیں مشہور کرنے میں زیادہ ہاتھ یورپی مصنفین کا ہے جنھوں نے مغلیہ خاندان کی غلط تصویر پیش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں، زیب النسا نے شادی نہیں کی۔ عام طور پر مشہور ہے کہ سلاطین تیموریہ لڑکیوں کی شادیاں نہیں کرتے تھے۔ اس غلط روایت کو یورپین مصنفوں نے بہت شہرت دی ہے اور اس سے ان کو شاہی بیگمات کی بدنامی پھیلانے میں بہت مدد ملی ہے، لیکن یہ قصہ ہی سرے سے بے بنیاد ہے۔ خود عالمگیر کی دوبیٹیاں زبدۃ النساء بیگم اور مہرالنساء بیگم سپہر شکوہ اور ایزد بخش (پسر شہزادہ مراد) سے بیاہی تھیں۔ چنانچہ مآثر عالمگیری میں دونوں شادیوں کی تاریخیں اورمختصر حالات لکھے ہیں اور خاتمہ کتاب میں بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ عالمگیر زیب النساء کی نہایت عزت کرتا تھا۔ جب وہ کہیں باہر سے آتی تھی تو اس کے استقبال کے لئے شہزادوں کو بھیجتا تھا۔ سفر و حضر میں اس کو ساتھ رکھتا تھا۔ کشمیر کے دشوار سفر میں بھی وہ ساتھ تھی۔ لیکن جب عالمگیر دکن گیا تو اس نے غالباً علمی زندگی کی وجہ سے پائے تخت کو چھوڑنا مناسب نہ سمجھا، اس کی چھوٹی بہن زینت النساء عالمگیر کے ساتھ آگئی چنانچہ اس کا نام بار بار واقعات میں آتا ہے۔ زیب النسا نے دلّی میں قیام کیا اور وہیں پیوند زمین ہوئی۔

زیب النسا کے متعلق متعدد جھوٹے قصّے مشہور ہوگئے ہیں جن کو یورپین مصنفوں نے اور زیادہ آب و رنگ دیا ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ زیب النسا اور عاقل خاں سے عاشقی اور معشوقی کا تعلق تھا اور زیب النسا اس کو چوری چھپے سے محل میں بلایا کرتی تھی۔ ایک دن عالمگیر محل میں موجود تھا کہ اس کو پتہ لگا کہ عاقل خاں محل میں ہے اور حمام کی دیگ میں چھپا دیا گیا ہے۔ عالمگیر نے انجان بن کر اسی دیگ میں پانی گرم کرنے کا حکم دیا۔ عاقل خاں نے اخفائے راز کے لحاظ سے دم نہ مارا اور جل کر رہ گیا۔ عاقل خاں کا مفصل تذکرہ مآثر الامرا میں موجود ہے اور چونکہ شاعر تھا، تمام تذکروں میں بھی اس کے حالات مذکور ہیں۔ لیکن اس واقعہ کا کہیں نام و نشان نہیں۔

زیب النسا نے عالمگیر کی حکومت کے 48 ویں سال دلّی میں انتقال کیا۔ مؤرخین کے مطابق 26 مئی 1702ء کو وہ دارِ بقا کو لوٹ گئیں اور عالمگیر اس وقت دکن کی فتوحات میں مصروف تھے، یہ خبر سن کر سخت غم زدہ ہوئے۔ بے اختیار آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ مآثر عالمگیر میں لکھا ہے کہ ’معلوم ہوا کہ نواب تقدیس زیب النسا بیگم اللہ سے پیوست ہوگئیں۔ بادشاہ کا دل اس خبر سے بھر آیا اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ وہ بے طاقتی کی وجہ سے بے قرار تھے۔ صبر کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ بادشاہ نے سید امجد خان، شیخ عطااللہ، حافظ خان کو حکم دیا کہ وہ غریبوں میں شہزادی کے نام پر صدقات اور خیرات تقسیم کریں اور بیگم کا مقبرہ تیس ہزاری میں بنائیں جو ان کا متروکہ بھی ہے۔‘

زیب النسا کی تدفین کے بارے میں دو رائے پائی جاتی ہیں۔ مولوی نور احمد چشتی (مصنف تحقیقات چشتی)، مرزا حیرت دہلوی، رائے بہادر کنہیا لال ہندی، شمس علماء خان بہادر اور سید محمد لطیف کے مطابق شہزادی کو لاہور میں دفن کیا گیا۔

مختلف تحقیقی حوالوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ زیب النسا کی قبر لاہور میں نہیں سلیم گڑھ دلّی میں تھی۔ مرزا سنگین بیگ نے اپنی کتاب ’سیر المنازل‘ میں لکھا کہ ’کابلی دروازے کے باہر شارع عام پر تکیہ بھولو شاہ کے شمال کی جانب زیب النسا کا مقبرہ اور لال پتھر کی مسجد ہے۔

سر سید احمد خان کی کتاب ’آثار الصنادید‘سے بھی زیب النسا کے مقبرے کی دلی میں موجودگی کی تصدیق ہوتی ہے، تاہم 1875 میں راجپوتانہ ریلوے تعمیر ہوئی تو یہ مقبرہ مسمار کر دیا گیا۔ مزار کی مسماری کے بعد زیب النسا کی قبر کو آگرہ میں شہنشاہ اکبر کے مزار کے قریب منتقل کیا گیا تھا۔ سو زیب النسا کے مزارکی لاہور میں موجودگی تاریخی حوالوں سے ثابت نہیں ہوتی۔ لاہور کے علاقے نواں کوٹ میں ان کے نام سے منسوب مزار میں کوئی اور دفن ہے۔ مگر کون، یہ تحقیق طلب ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں