پاکستان کے ممتاز سائنس داں ڈاکٹر رضی الدّین کا یہ تذکرہ جہاں ایک نسل کے لیے باعثِ فخر ہے وہیں بالخصوص نسلِ نو کا ایسی باکمال اور کم یاب شخصیت اور ان کے کارناموں سے واقف ہونا ضروری ہے تاکہ وہ انھیں اپنا رول ماڈل بنا سکیں۔ رضی الدین ماہرِ تعلیم بھی تھے اور ادبی شخصیت بھی۔ عربی، فارسی، جرمن اور فرنچ زبانوں پر بھی عبور رکھتے تھے اور اسی لیے انھیں جینئس تسلیم کیا جاتا ہے۔
وسیع المطالعہ، قابل اور ذہین رضی الدین کی شخصیت ایسی تھی کہ ان کے اساتذہ بھی ان سے بہت عزّت اور احترام سے پیش آتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کا انتقال دو جنوری کو ہوا لیکن انٹرنیٹ پر رفتگاں کے تذکرے میں بعض جگہ تاریخِ وفات 8 جنوری لکھا گیا ہے۔
ڈاکٹر رضی الدین صدیقی بیک وقت کئی علوم میں درجۂ کمال پر پہنچے اور ان کے علم و افکار تحریری شکل میں ایک بڑا سرمایہ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب دانش ور اور ادبی شخصیت کے ساتھ اسلامی تمدن کے اسکالر بھی تھے ۔
محمد رضی الدین صدیقی 7 اپریل 1905 کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ اس دور میں عربی، فارسی اور دیگر مشرقی علوم کی تعلیم دارالعلوم سے حاصل کی اور پھر حیدرآباد دکن کی مشہور عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ خالص اردو میں تعلیمی پس منظر کے باوجود انہیں کیمبرج یونیورسٹی کی اسکالرشپ مل گئی۔ وہ داخلے کے امتحان میں اوّل آئے تھے۔ کیمبرج میں ڈاکٹر صاحب فزکس کے مایہ ناز ماہر اور نوبیل انعام یافتہ پال ڈیراک کے شاگردوں میں شامل رہے۔ ڈیراک کوانٹم مکینکس کے بانیوں میں شامل ہیں جنہیں 1933 میں نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ کیمبرج ہی میں فلکیات کے ماہر سر آرتھر ایڈنگٹن کے شاگرد بھی بنے اور پھر ماسٹرز کے بعد ڈاکٹریٹ کے لیے جرمنی کا سفر کیا۔ وہاں وہ مشہور سائنس داں ورنر ہائزن برگ کے شاگرد رہے۔ اس وقت کوانٹم مکینکس اور نظریۂ اضافیت کے تصورات نے تہلکہ مچا رکھا تھا۔ فزکس کے میدان میں تبدیلیاں رونما ہورہی تھیں۔ ڈاکٹر رضی الدین نے اس زمانے میں آئن سٹائن کے لیکچرز میں شرکت کی اور اس عظیم سائنس داں سے بہت کچھ سیکھا۔
ڈاکٹر صدیقی نے 1930 میں تھیوری آف نان لینیئر پارشل ڈیفرینشیل اکیویشن کے موضوع پر اپنا تحقیقی مقالہ تحریر کیا۔ پی ایچ ڈی کے بعد ہائزن برگ کے ہی مشورے پر رضی الدین صدیقی پیرس چلے گئے اور وہاں فرانس میں تحقیقی مقالے لکھے جو اس دور کے ممتاز جرنلز میں شائع ہوئے۔ 1931 میں وہ حیدرآباد دکن میں جامعہ عثمانیہ میں ریاضی پڑھانے لگے۔ 1937 میں انھوں نے کوانٹم مکینکس پر لیکچرز مرتب کر کے کتابی شکل دی جو ایک علمی کام تھا اور طالب علموں کے لیے یہ مفید کتاب ثابت ہوئی۔ 1938 میں ڈاکٹر رضی الدین صدیقی کو انڈین نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کی جانب سے بہترین تحقیق پر گولڈ میڈل دیا گیا۔ 1940 نے انجمن ترقی اردو، حیدرآباد نے ان کی اہم کتاب نظریۂ اضافیت (تھیوری آف ریلیٹویٹی) شائع کی۔
ڈاکٹر رضی الدین صدیقی علامہ اقبال کے فنِ شاعری اور ان کے کلام کے اسکالر بھی تھے۔ 1974 میں ان کی مرتب کردہ کتاب ‘ اقبال کے تصورِ زمان و مکان’ کو بزمِ اقبال نے شائع کیا تھا۔ اردو کے علاوہ انگریزی کلاسک کا بڑا حصہ ان کے زیرِ مطالعہ تھا۔ ادب کے مختلف موضوعات اور اصناف پر ان کی گہری نظر تھی اور ساتھ ہی سائنس کی دنیا میں وہ ایک بہترین دماغ تھے۔ 1950 میں وہ حکومتِ ہند کی جانب سے ایک وفد کی قیادت کرتے ہوئے کراچی کی ایک سائنس کانفرنس میں شرکت کے لیے جب وہ پاکستان آئے تو پاکستان کی تین مختلف یونیورسٹیوں کی وائس چانسلر شپ کی آفر کی گئی۔ لیکن وہ ہندوستان جا کر علیگڑھ یونیورسٹی میں اپنی تحقیقات جاری رکھنا چاہتے تھے۔ تاہم ایک موقع ایسا آیا جب ڈاکٹر رضی الدین صدیقی کو پاکستان میں رہنا پڑا اور بھارت میں اُن کی جائیداد اور ان کا قیمتی کتب خانہ ضبط کرلیا گیا۔ وہ یہاں مختلف جامعات کے سربراہ رہے اور کئی علمی اداروں کی سرپرستی کی۔ ملک میں تعلیم کے فروغ اور معیار بلند کرنے کے لیے ان کی کوششیں قابل تحسین ہیں۔1952ء میں ڈاکٹر صاحب کو انٹرنیشنل میتھمیٹکل یونین کی نیشنل کمیٹی کا صدر بنایا گیا اور مسلسل بیس سال تک یہ اعزاز ان کے پاس رہا۔ 1960 میں حکومت نے رضی الدین صدیقی کو ستارۂ امتیاز دیا اور 1981 میں ہلالِ امتیاز سے نوازا تھا۔