پیر, جون 16, 2025
اشتہار

اردو کی خدمت اور دادا

اشتہار

حیرت انگیز

اردو ادب میں مشاہیر کا تذکرہ، علمی و ادبی خدمات اور کارناموں کے ساتھ ساتھ اُن کی زندگی کے مختلف گوشے، اُن کی باتیں، یادیں اور مختلف واقعات ہمیں‌ کتابوں میں‌ پڑھنے کو ملتے ہیں جن میں‌ خاص طور پر سوانح عمریاں اور شخصی خاکوں‌ پر مبنی کتابیں شامل ہیں۔ یہ ایک ایسی ہی دل چسپ اور پُر لطف تحریر ہے، جو اردو کے معروف مزاح نگار مجتبیٰ‌ حسین کے قلم سے نکلی ہے اور ان کے ممدوح ہیں شاہد علی خاں۔

شاہد علی‌ خاں بھارت میں ماہنامہ "کتاب نما” کے مدیر اور مکتبہ جامعہ دہلی کے جنرل منیجر کی حیثیت سے علمی و ادبی حلقوں میں معروف ہوئے۔ مجتبیٰ حسین اپنے مضمون میں‌ شاہد علی خاں کے بارے میں لکھتے ہیں، "کچھ لوگ ہوتے ہیں جو انعام حاصل کرنے کو ہی اہم کام سمجھتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کام کو ہی سب سے بڑا انعام سمجھتے ہیں۔ شاہد علی خاں کا شمار مؤخر الذّکر لوگوں میں ہوتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب وہ سنتے تو سب کی تھے لیکن کام اپنا ہی کئے جاتے تھے۔ لیکن ادھر جب سے ان کی سماعت کسی قدر متاثر ہوئی ہے تب سے وہ کام میں کچھ زیادہ ہی ڈوبتے چلے جارہے ہیں۔ اب وہ یا تو کہنے والے کی بات کو سنی ان سنی کردیتے ہیں یا پھر بالکل ہی نہیں سنتے، ہر دم کام میں لگے رہتے ہیں۔ اگر آپ سلام کے بعد ان کی خیریت پوچھیں تو جواب ملے گا:

” جی ہاں! اس بار’کتاب نما‘ کی پوسٹنگ میں تین دنوں کی تاخیر ہوگئی۔”

آپ پوچھیں گے”اس بار رمضان میں کتنے روزے رکھے؟”

تو جواب ملے گا "ذرا مکتبہ جامعہ کی اسٹاک چیکنگ (Stock cheking) ہو جانے دیجئے پھر بتاؤں گا۔”

غرض ان سے تبادلۂ خیال کے نتیجے میں فریقین کی طرف سے ادا ہونے والے جملوں کو اگر آپ ہو بہو کاغذ پر منتقل کر دیں تو بخدا کسی کام یاب نثری نظم کا لطف آجائے۔

گرمی ہو یا سردی، آندھی ہو یا طوفان، کام کا دن ہو یا چھٹی کا دن، ان کی خدمات ہمیشہ جاری و ساری رہتی ہیں۔ میز پر مضامین کا انبار لگا ہوا ہے، خطوط کے پلندے بندھے ہوئے ہیں، کتابوں کے پروفس رکھے ہوئے ہیں، جا بجا کاغذات کا ڈھیر ہے۔ ان کے کام کرنے کی میز کو اگر کوئی دیکھ لے تو اسے اندازہ ہو گا کہ انتشار میں تنظیم، بکھراؤ میں ٹھہراؤ پیدا کرنے کا نام ہی اردو کی خدمت ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ایسے انتشار میں اردو کی خدمت کرنا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔

شاہد علی خاں سے لگ بھگ تیس برس پہلے ممبئی میں پہلی ملاقات ہوئی تھی جب وہ مکتبہ جامعہ کی ممبئی برانچ میں منیجر تھے۔ وہاں بھی ان کا وہی حال تھا، وہی بے ترتیبی میں ایک ترتیب اور وہی بکھراؤ میں ایک رچاؤ۔ وہ اسی کو اردو تہذیب بھی کہتے ہیں۔ اردو میں ایسی بے لوث خدمت کرنے والے اب کم ہی پائے جاتے ہیں۔ ان کی خوبی یہ ہے کہ اردو کے سارے ادیبوں سے تعلق رکھنے کے باوجود ان کا تعلق ادیبوں کے کسی گروہ سے نہیں ہے۔ "کتاب نما” اور "پیامِ تعلیم” کے مدیر کی حیثیت سے بھی ان کی کوششیں یہ ہوتی ہیں کہ اردو کے سارے گروہوں کی نمائندگی ان کے رسالوں میں تو ہو لیکن ان کے رسالے کسی گروہ کے ترجمان نہ بن جائیں۔ اس مقصد کے لئے ہر ماہ وہ ایک ” مہمان مدیر” کو پکڑ کر لاتے ہیں۔ (اردو صحافت میں ‘مہمان مدیر’ کی ایجاد کا سہرا بھی شاہد علی خاں کے سر جاتا ہے۔)

شاہد علی خاں بچّوں کے مقبول ماہنامہ "پیامِ تعلیم” کے مدیر بھی ہیں اور اردو میں بچّوں کے ادب کو فروغ دینے کے معاملے میں ہر دم سنجیدہ رہتے ہیں۔ انہیں اس بات کا احساس ہے کہ ہم جیسوں کی بچکانہ تحریروں کے لئے تو "کتاب نما” کے صفحے موجود ہیں لیکن "پیامِ تعلیم” میں ایسی تحریریں چھپنی چاہییں، جن سے واقعی بچّوں کی تربیت ہوسکے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ "کتاب نما” کے مقابلے میں "پیامِ تعلیم” کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

بچّوں سے شاہد علی خاں کی محبّت اندازہ ہمیں اس وقت ہوا جب چھ سات مہینے پہلے مکتبہ جامعہ کے رکشاران نعمت کا چار سالہ بیٹا اپنے باپ کے پاس کچھ عرصہ رہنے کے لئے بہار کے کسی گاؤں سے دہلی آیا۔ وہ بہار کی کسی مقامی بولی میں بات چیت کرتا تھا لیکن شاہد علی خاں نے اسے اردو اور اردو تہذیب سے واقف کرانے کا بیڑہ اٹھایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تین چار مہینوں میں وہ اردو تہذیب سے اتنا واقف ہوگیا کہ اس نے شاہد علی خاں کو اپنا دادا بنا لیا اور ان کے ملنے والوں کو حسبِ عمر چچا، تایا، انکل وغیرہ بنانے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ مکتبہ جامعہ کا ایک اہم کردار بن گیا اور مکتبہ جامعہ میں اس کی اہمیت خود شاہد علی خاں سے بھی کہیں زیادہ بڑھ گئی۔

وہ اکثر شاہد علی خاں کی گود میں بیٹھا رہتا اور نت نئی فرمائشیں کرنے کے علاوہ وہ دل چسپ باتیں بھی کرتا جاتا۔ رات کو بھی وہ ان ہی کے پاس سو جاتا تھا۔ ایک دن وہ ہمیں مکتبہ جامعہ کے گیٹ پر مل گیا تو اس نے حسبِ معمول بہ آوازِ بلند ہمیں سلام کیا۔ (شاہد علی خاں کی وجہ سے اسے ہر ایک سے بہ آواز بلند بات کرنے کی عادت ہوگئی تھی) پھر مخصوص انداز میں ہماری خیریت پوچھنے لگا۔ ہم نے پوچھا:

"شمشیر علی ! تمہارے دادا اس وقت کیا کر رہے ہیں؟”

بولا:”وہی ہاتھ میں قلم لے کر کاغذوں کے پلندوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔”

ہم نے اسے ٹوکا کہ میاں شمشیر کوئی تم سے ایسا سوال کرے تو تمہیں اس طرح جواب نہیں دینا چاہیے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ: "دادا اس وقت اردو کی خدمت کر رہے ہیں۔” اس کے بعد جب بھی وہ ہمیں ملتا اور ہم اس سے یہ سوال کرتے تو وہ فوراً جواب دیتا:” دادا! اردو کی خدمت کر رہے ہیں۔”

ایک دن ہم مکتبہ گئے تو پھر وہ ہمیں صحن میں مل گیا۔ ہم نے پوچھا:” تمہارے دادا کیا کر رہے ہیں؟”

روتے ہوئے بولا: وہ اردو کی خدمت نہیں کر رہے ہیں کیوں کہ انہیں کل سے بہت تیز بخار ہے، آپ لوگ خود اردو کی خدمت کیوں نہیں کرتے، میرے دادا سے کیوں خدمت کرواتے ہیں؟”

اس کی بات کو سن کر ہم ہنسنے لگے تو غصے سے بولا:” میرے دادا کی طبیعت خراب ہے اور آپ ہنس رہے ہیں، میں آئندہ سے دادا کو کبھی اردو کی خدمت نہیں کرنے دوں گا۔”

(ماخوذ از کتاب: شاہد علی خاں: ایک فرد – ایک ادارہ.)

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں