تازہ ترین

نو سو ننانوے اشرفیاں

ملّا نصر الدّین کو ایک عقل مند، دانا اور ایسا خوش مزاج کہا جاتا ہے جو ہنسی مذاق اور تفریح میں لوگوں کے ظاہر و باطن کی اصلاح کا کام کرتا تھا۔ کتنے ہی قصّے، دانائی کی باتیں اور لطائف ملّا نصر الدّین سے منسوب ہیں، اور یہ ایک ایسا قصّہ ہے جو دل چسپ بھی ہے اور سبق آموز بھی۔

کہتے ہیں کہ ملّا نصر الدّین کے پڑوس میں ایک مال دار شخص رہتا تھا جو بہت کنجوس تھا۔ وہ اپنا مال تجوری میں بھرتا جاتا تھا اور کسی غریب اور محتاج کی مدد کو آمادہ نہ تھا۔ ملّا نے کئی مرتبہ اسے سمجھایا کہ خدا نے تمہیں دولت عطا کی ہے، اس میں سے کچھ غریب اور مفلس لوگوں پر خرچ کیا کرو، تاکہ خدا تم پر رحمت نازل کرے۔ لیکن اس نے ملّا ہمیشہ ٹال دیا۔ آخر ملّا نصر الدّین کو اس سے مال نکلوانے اور کنجوس کو سبق سکھانے کی ایک ترکیب سوجھی۔

ایک روز صبح سویرے وہ نماز پڑھ کر زور زور سے دعا مانگنے لگا، یا اللہ، اگر تو مجھے ایک ہزار اشرفیوں کی تھیلی بھیج دے تو میں اسے محتاجوں پر صرف کر دوں۔ لیکن اگر اس میں ایک اشرفی بھی کم ہوئی تو میں اسے ہرگز قبول نہ کروں گا۔

وہ یہ دعا اتنے بلند آواز میں کر رہا تھا کہ اس کا کنجوس پڑوسی متوجہ ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اس نے یہ دعا سنی تو سوچا کہ ملّا بڑا ایمان دار بنتا ہے، اسے آزمانا چاہیے۔ یہ سوچ کر اس نے ایک تھیلی میں نو سو ننانوے اشرفیاں بھر لیں اور اس میں کاغذ کا ایک ٹکڑا ڈال دیا جس پر لکھا تھا کہ اگر یہ نعمت قبول نہ ہو تو اسے اپنے صحن سے باہر گلی میں جھانکے بغیر پھینک دینا۔ اب وہ گھر سے نکل کر ملّا کے صحن کی دیوار سے لگ کر کھڑا ہوگیا۔ عین اس وقت جب ملّا نصر الدّین نے دعائیہ کلمات دہرائے تو کنجوس شخص نے تھیلی اس کے صحن میں پھینک دی۔

ملّا نصر الدین نے لپک کر تھیلی اٹھا لی اور اس میں سے اشرفیاں نکال نکال کر گننے لگا۔ کل نو سو ننانوے اشرفیاں تھیں۔ ساتھ ہی وہ تحریر بھی اس کے ہاتھ لگی مگر ملّا نے با آوازِ بلند خدا کا شکر ادا کیا اور کہنے لگا۔ یا اللہ، تُو نے میری دعا قبول کی ہے، ایک اشرفی کم ہے تو کوئی بات نہیں، یہ اشرفی پھر کبھی دے دینا۔ ادھر ملّا جی کے کنجوس پڑوسی نے جب یہ سنا تو سخت پریشان ہوا۔ وہ سمجھا تھا کہ ملّا اشرفیاں گننے کے بعد خدا سے شکوہ کرے گا اور تھیلی باہر پھینک دے گا۔ لیکن یہاں تو اس کے برعکس ہوا اور ملّا نے وہ اشرفیاں رکھ لیں۔

کنجوس پڑوسی کی سمجھ نہ آتا تھا کہ کیا کرے۔ اسے اچانک یہ احساس ستانے لگا کہ ملّا بہت چالاک ہے اور اس نے دھوکے سے میری اشرفیاں ہتھا لی ہیں۔ اس کے ذہن میں یہ بات آئی ہی تھی کہ وہ تیزی سے ملّا کے گھر کا دروازہ پیٹنے لگا۔ ملّا کو دروازے پر دیکھتے ہی کہنے لگا تم بہت بے ایمان شخص ہو۔ لاؤ، میری اشرفیاں واپس کرو۔ تم نے تو کہا تھا کہ ہزار میں سے ایک اشرفی بھی کم ہوئی تو واپس کر دوں گا، لیکن اب تم وہ تھیلی قبول کرنے پر تیار ہو۔

ملّا نصر الدّین نے بھی غصّے کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا، تم کون ہوتے ہو مجھ سے اشرفیاں مانگنے والے، یہ تو میرے خدا نے مجھے بھیجی ہیں، شاید تم نے سنا ہو کہ اُس سے گڑگڑا کر اس کے لیے دعا کر رہا تھا۔ جاؤ یہاں سے، اپنا کام کرو۔

کنجوس شخص سیدھا قاضی کی عدالت میں گیا اور ملّا کی شکایت کردی۔ قاضی صاحب نے ملّا نصر الدّین کو طلب کرلیا۔ وہ کنجوس ملّا نصر الدّین کے پاس گیا اور کہا چلو، تمہیں قاضی صاحب بلاتے ہیں۔ ملّا نے جواب دیا، تم دیکھ رہے ہو کہ میرا لباس پھٹا پرانا ہے، میں اس شرط پر جانے کے لیے تیار ہوں کہ تم مجھے اچھے اچھے کپڑے لا کر دو، اس کنجوس نے عجلت میں یہ شرط بھی منظور کر لی اور صاف ستھرے کپڑے ملّا کو لا کر دے دیے۔ اس کے بعد ملّا نے مزید فرمائش کردی۔ کہنے لگا، میاں کیا اتنا قیمتی لباس پہن کر پیدل ہی قاضی کی عدالت میں جاؤں، لوگ دیکھیں گے تو دل میں کیا کہیں گے، جاؤ اپنا گھوڑا لے آؤ، اس پر سوار ہو کر جاؤں گا۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ مال دار پڑوسی نے اپنا گھوڑا بھی ملّا جی کے حوالے کر دیا اور وہ نہایت شان و شوکت سے گھوڑے پر سوار ہو کر قاضی کی عدالت میں پہنچے۔

قاضی صاحب نے دونوں کو غور سے دیکھا۔ ملّا نصر الدّین کا قیمتی لباس اور سواری کا گھوڑا بھی جب کہ مدعی پیدل آیا تھا۔ اس نے قاضی کے روبرو سارا قصّہ سنایا تو قاضی صاحب نے ملّا جی سے کہا کہ وہ اس پر اپنی صفائی دے۔

ملّا نصر الدّین نے کہا، حضور! یہ میرا پڑوسی ہے اور بڑا جھوا شخص ہے، ابھی تو یہ کہتا ہے کہ میں نے اس کی نو سو ننانوے اشرفیاں ہتھیا لی ہیں اور کچھ دیر بعد کہے گا کہ یہ لباس جو میں پہنے ہوئے ہوں وہ بھی اسے کا ہے۔

یہ سنتے ہی جلد باز اور بے وقوف پڑوسی چلّا اٹھا، ہاں جناب، یہ لباس بھی میرا ہے، میں نے اسے پہننے کے لیے دیا تھا۔

ملا نصر الدین نے مسکرا کر قاضی کی طرف دیکھا اور بولا، جناب سن لیا آپ نے، یہ لباس بھی اس کا ہو گیا اور ابھی دیکھیے یہ کہہ دے گا کہ گھوڑا بھی اسی کا ہے۔

اشرفیوں کا حقیقی مالک اس وقت ہوش کے بجائے جوش سے کام لے رہا تھا۔ اس نے غصّے کے عالم میں کہا، ہاں حضور، یہ گھوڑا میرا ہی ہے، اس فریبی نے مجھ سے سواری کے لیے مانگا تھا۔

قاضی کو اس کنجوس کا یہ انداز ناگوار گزرا اور اس نے خیال کیا کہ یہ کوئی احمق اور نہایت ہی جاہل انسان ہے، جو اس کا وقت ضایع کررہا ہے۔ قاضی نے اس کی کچھ نہ سنی اور ڈانٹ پھٹکار کر اس کا مقدمہ خارج کر دیا۔

بعد میں‌ وہ کنجوس روتا پیٹتا ملّا نصر الدّین کے گھر پہنچ گیا اور اس کی بڑی منت سماجت کی۔ تب ملّا نے اس شرط پر اس کی اشرفیاں، لباس اور گھوڑا واپس کیا کہ وہ آدھی اشرفیاں غریبوں میں بانٹ دے گا اور آئندہ بھی نادار لوگوں کی مدد کرتا رہے گا۔

Comments

- Advertisement -