تازہ ترین

صدر آصف زرداری آج پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے

اسلام آباد : صدر آصف زرداری آج پارلیمنٹ کے...

پاکستانیوں نے دہشت گردوں کے ہاتھوں بہت نقصان اٹھایا، میتھیو ملر

ترجمان امریکی محکمہ خارجہ میتھیو ملر نے کہا ہے...

فیض حمید پر الزامات کی تحقیقات کیلیے انکوائری کمیٹی قائم

اسلام آباد: سابق ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹلیجنس (آئی...

افغانستان سے دراندازی کی کوشش میں 7 دہشتگرد مارے گئے

راولپنڈی: اسپن کئی میں پاک افغان بارڈر سے دراندازی...

‘ سعودی وفد کا دورہ: پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی’

اسلام آباد : وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے...

اردو ادب میں‌ منفرد و ممتاز، ممتاز مفتی کی برسی

ممتاز مفتی اردو ادب کا وہ معتبر نام ہے جس نے اپنے ناولوں، افسانوں سے تخلیقی ادب میں اپنی پہچان بنائی اور اپنے سفر ناموں کے سبب مقبولیت اور پذیرائی حاصل کی۔ خاکہ نگاری اور ڈراما نویسی کے علاوہ ان کے مضامین بھی اردو ادب کا نثری سرمایہ ہیں۔

اپنی فکر و نظر کی گہرائی سے افسانوی اور غیر افسانوی ادب کی مختلف اصناف کو نئے موضوعات اور نئی معنویت سے ہمکنار کرنے والے ممتاز مفتی کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

ممتاز مفتی کا اصل نام ممتاز حسین تھا۔ وہ 11 ستمبر 1905ء کو بٹالہ، ضلع گورداس پور میں‌ پیدا ہوئے۔ لاہور سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ ممتاز مفتی کا پہلا افسانہ 1936ء میں شائع ہوا تھا۔

ممتاز مفتی کا سوانحی ناول ’’علی پور کا ایلی‘‘ اور ’’الکھ نگری‘‘ قارئین میں بہت مقبول ہوئے۔ اسی طرح ان کے سفر نامے ’’لبیک‘‘ اور ’’ہند یاترا‘‘ کو بہت پزیرائی ملی جب کہ ان کے خاکوں کے مجموعے پیاز کے چھلکے، اوکھے لوگ، اور اوکھے لوگ کے نام سے شایع ہوئے۔

ممتاز مفتی کے افسانے ان کہی، گہما گہمی، چپ، روغنی پتلے اور سمے کا بندھن کے نام سے کتابی شکل میں منظرِ عام پر آئے۔

27 اکتوبر 1995ء کو ممتاز مفتی نے اس دارِ فانی کو الوداع کہا، وہ اسلام آباد کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

حکومتِ پاکستان نے ممتاز مفتی کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔

Comments

- Advertisement -